کرونا کے دور میں نیا خوف، نئی سرحدیں اور نئے محافظ

نئے معاشرتی طرز زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ ہمارے اصل محافظ ڈاکٹر ہیں، نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف ہے  جو اس وقت اگلے مورچوں پر سرگرم عمل ہے۔

26 مارچ 2020 کو لی گئی اس تصویر میں سکیورٹی اہلکار کورنا وائرس کے خلاف جنگ میں  کردار ادا کرنے پر ایک ڈاکٹر کو سلیوٹ کر رہے ہیں (تصویر: اےا یف پی)

ایک ایسے لاک ڈاؤن میں جب ہم سب موت کے محاصرے میں ہیں اور ایک نئے طرز زندگی سے آشنا ہو رہے ہیں۔ ایک ایسا طرز زندگی جو ہم سے پہلے کسی  نسل نے نہیں دیکھا اور  جس سے ہمارے آبا و اجداد بھی آشنا نہیں تھے اور جس سے چند ماہ پہلے تک ہماری بھی کوئی شناسائی نہیں تھی۔

 یہ ایسا طرز زندگی ہے کہ جس میں خوف کے سوا کچھ نہیں۔ اور جس نے ہم ایسے لوگوں کو بھی خوف زدہ کردیا ہے جنہوں نے اپنا سارا جیون ڈرتے ڈرتےکا ناٹک کرتے ہوئے بے خوف گزارا اور جو خوف کو خوف نہیں سمجھتے تھے اور موت سے ہمکلام ہوتے تھے اور اس لیے ہمکلام ہوتے تھے کہ وہ موت کو موت نہیں سمجھتے تھے۔ اسے ایک ابدی زندگی کا نام دیتے تھے۔

یہ ایسا خوف ہے کہ جس میں خوشی تو دور کی بات مبارک باد بھی بے معنی ہوگئی۔ خوشی کے لمحوں میں تو درکنار اب کسی کو پرسہ دینے کے لیے بھی گلے لگانے کی اجازت نہیں۔

یہ خوف ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی ہمیں کس قدر عزیز ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کی تمام مثالیں اور محاورے  آج کے زمانے میں بے معنی ہوگئے ہیں۔ اس لیے بے معنی ہوگئے کہ جب آپ کے دل میں موت کا ڈر بیٹھ جاتا ہے اور آپ کو بتادیا جاتا ہے کہ آپ نے کسی کو ہاتھ لگایا یا آپ کو کسی نے ہاتھ لگایا تو دست اجل آپ کا ہاتھ تھام لے گا۔ پھر ہم خوف کے مارے اپنے والدین سے پیار نہیں لیتے۔ ان کے قریب نہیں جاتے۔ ان کے سامنے اپنا سر نہیں جھکاتے کہ وہ اس پر دست شفقت رکھیں اور ہمیں بہت سی دعائیں دیں۔

 یہ کیسا  خوف ہے کہ جس نے ہمیں دعائیں مانگنے والے ہاتھوں سے بھی دور کردیا۔ والدین، بچوں اور بہن بھائیوں کو خونی رشتے کہا جاتا ہے۔ یہ سب وہ رشتے ہیں کہ جو ایک دوسرے کے لیے جانیں قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے لیکن اس نئے طرز زندگی میں چونکہ فاصلہ ضروری ہوگیا ہے اس لیے یہ خونی رشتے بھی اب بے معنی ہو کر ایک دوسرے سے گریزاں ہیں۔

گریز کے ان لمحات میں، خوف کے ان لمحات میں سماجی رابطوں کی بجائے سماجی فاصلوں کے اس زمانے میں اور بعد از کرونا کے اس زمانے میں‌ ہم سب بہت سے نئے تجربات سے گزر رہے ہیں۔ پلاسٹک میں بند لاشوں کو تابوت میں رکھ کرتابوت کے شیشے میں سے میت کا چہرہ دیکھنے کی ہدایت دینے والوں نے مرنے والوں سے ان کے ورثا کی جذباتی وابستگیاں بھی ختم کردیں۔

نئے زمانے میں مرنے والوں کی نشانیاں سنبھال کر نہیں رکھی جائیں گی۔یہ سب کچھ چتا کی طرح نذر آتش کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویڈیو وائرل ہونے کے زمانے میں کرونا کے نام سے متعارف ہونے والے وائرس نے ہمیں اچھی طرح سمجھا دیا کہ وائرس یا وائرل درحقیقت ہے کیا۔ ہمیں سمجھ آگئی کہ کیسے ویڈیوز اور کووڈ19 تیزی کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ بیماریوں کی طرح پھیلنے والی ویڈیوز مزید پھیل رہی ہیں۔ ٹونے ٹوٹکے اور بھانت بھانت کے طبی مشورے اپنی جگہ لیکن سب سے بڑا حملہ تو اس زمانے میں عقائد پر ہوگیا۔ ہم خوف کے مارے اب کچھ بولتے ہی نہیں بس سوچے چلے جاتے ہیں۔ مسجد، مندر اور گرجے کی ویرانی پر ہم ایک دوسرے کے مذہب یا فرقے پر طنعہ زن ہوتے ہیں اور پھر دل ہی دل میں کچھ سوچ کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور اپنے ذہن کوجھٹک دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اس وائرس نے شیطان کو زنجیر کیوں نہیں ڈالی اور وہ اب تک کیوں ہمارے دلوں میں وسوسے پیدا کر رہا ہے۔

ہم حکمرانوں پر تنقید نہیں کرنا چاہتے کہ یہ وقت تنقید کا نہیں، متحد ہو کر مقابلہ کرنے کا ہے لیکن ہم ایک ایسے زمانے میں بہرحال سانس لے رہے ہیں جہاں سب نے ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنا رکھی ہیں اور یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں نمودار بھی جمعے کے روز ہوتی ہیں۔ جب یہ بحث شروع ہوتی ہے کہ جب طواف موقوف ہوچکا، مسجد نبوی کو تالے لگ گئے اور بیشتر اسلامی ممالک میں موذن گھروں میں نماز پڑھنے کی تلقین بھی کر رہے ہیں، ایسے میں وطن عزیز میں ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں جمعے کے روز کھلی رہتی ہیں۔ لوگوں کو ٹخنے کے ساتھ ٹخنہ جوڑ کر اور کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر قیام وسجود کی تلقین کی جاتی ہے اور ایک دوسرے کی ضد میں تمام احتیاطیں بالائے طاق رکھ دی جاتی ہیں۔

اب مریض کولے جانے والے اس کے لواحقین کو یہ بتا کر جاتے ہیں کہ اگر یہ صحت مند ہوگئے تو واپس آئیں گے ورنہ خدا حافظ۔ ایسے میں ان مسیحاﺅں کی ہمت اور حوصلے کو داد دینا پڑتی ہے جو پاکستان جیسے ملک میں ناکافی طبی سہولتوں اور حفاظتی انتظامات کے بغیر موت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔وبا کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں۔

نئے معاشرتی طرز زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ ہمارے اصل محافظ ڈاکٹر ہیں، نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف ہے  جو اس وقت اگلے مورچوں پر سرگرم عمل ہے۔ پہلی بار معلوم ہوا کہ جہاں بندوق بے بس ہوجاتی ہے۔ جہاں سرحدیں بے معنی ہوجاتی ہیں۔ وہاں اصل محافظ میدان میں آجاتے ہیں۔انہیں کسی بندوق کی ضرورت نہیں۔ انہیں کسی چھاؤنی یا ٹینک کی ضرورت نہیں۔ کوئی بکتربند گاڑی یہاں کام نہیں آئے گی۔ یہاں صرف حفاظتی لباس کی ضرورت ہے، ویکسین کی ضرورت ہے، ماسک کی ضرورت ہے اور اس مہارت کی ضرورت ہے جو اس طبی عملے کے پاس ہے اور اس حوصلے کی ضرورت ہے جس کے ساتھ وہ اس جنگ میں سرگرم عمل ہیں۔ان میں سے کچھ جان کی بازی ہار چکے اور کچھ اپنی جان کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ آج ہم نے صرف ان کے لیے ہی پرچم نہیں لہرایا۔ ہر اس شخص کے لیے پرچم لہرایا اور تالیاں بجائیں جو ہرخوف کو بالائے طاق  رکھ کر اس جنگ میں شریک ہے ۔ان سب مسیحاؤں اور محافظوں کو میرا سلام پہنچے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ