آبادی کا عفریت اور کرونا وائرس

ایسا لگتا ہے کہ پچھلی سات دہائیوں میں وطن عزیز نے صرف چار شعبوں میں حقیقی ترقی کی ہے۔ آبادی کا عفریت، بیڈ گورنس، تعلیم کی بیخ کنی اور گداگری کی صنعت۔

پاکستان میں ہر سال نیوزی لینڈ جتنی آبادی کا اضافہ ہو رہا ہے (اے ایف پی)

  آپ نے شاید ستمبر میں ٹی وی پر 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران ایوب خان کی تقریرکی فوٹیج دیکھی ہو، جس میں وہ کہتے ہیں کہ دس کروڑپاکستانیوں کے امتحان کا وقت آ گیا ہے، اور یہ دس کروڑ مشرقی اور مغربی پاکستان کی کل آبادی تھی۔

 1951کی مردم شماری میں مغربی پاکستان کی آبادی تین کروڑ 37لاکھ 80 ہزارتھی، جو اب 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ 2.4 فی صد کی شرح نمو کے ساتھ ہم ہرسال تقریباً نصف کروڑ بچے پیداکرتے ہیں۔

 چھٹی مرد م شماری کے نتائج کے مطابق گذشتہ 19 برس میں ہماری آبادی میں57 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ماہرین کے مطابق اگلے 11 برس بعد ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن جائے گا۔ یونیسکو کی عالمی رپورٹ برائے تعلیم کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 57فیصد، جبکہ تعلیم پر توجہ نہ دینے والے اس خطے کے نو ممالک میں ہمارا نمبر آٹھواں ہے۔

برطانوی ادارے کیو ایس کی جانب سے 2020 کے لیے جاری کی گئی دنیا کی بہترین 374 یونیورسٹیوں میں ایک بھی پاکستانی یونیورسٹی شامل نہیں۔ ہمارے سکول جانے کی عمر کے بچوں کی نصف تعداد یعنی تقریباً ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔

یہ نونہال کیا کرتے ہیں، یہ ناخواندہ اورنیم خواندہ شہری کس کام آتے ہیں، ان بے روزگاروں کا شغل کیا ہے، ان خط غربت سے نیچے رینگنےاورانصاف کے لیے رُلنے والوں کی مصروفیات کیا ہیں، اس کراں تابہ کراں پھیلی آبادی کاعفریب کیا گل کھلاتا ہے؟

یہ سب جعلی پیروں اوردیگر سیاسی وغیر سیاسی شعبدہ بازوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے معاشرے میں انتشار و افتراق اورشدت پسندی پھیلانے میں نادانستہ اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ غریب کرونا جیسے وبائی امراض کا نہ صرف ایندھن ہیں بلکہ اپنی ناسمجھی کے طفیل انہیں فروغ دینے میں بھی اپنی پوری توانائیاں صرف کرتے ہیں۔

استاد فرماتے ہیں: ’میں ایک ایسی قوم کا فرد ہوں، جس نے گذشتہ کئی صدیوں سے کوئی بات نہیں سوچی‘ درست، مگراب 21ویں صدی میں ہمیں گلوبل ویلیج کے ساتھ چلنے کے لیے سوچ کے زنگ آلود کواڑ کھول کر غور و فکر کی عادت ڈالنی ہو گی۔ اگر ہم اپنی روایات سے بغاوت کر کے یہ کار خیر انجام دینے میں کامیاب ہو گئے تو تھوڑےغور و فکر کی کوکھ سے جواب برآمد ہو گا کہ دنیا کے جن ممالک میں آبادی ریاستی منصوبہ بندی کے تحت بڑھتی ہے، ہر کسی کے لیے علم و تحقیق کے درکھلے ہیں، سوچ اور اظہارکی آزادی ہے، انصاف، مساوات، بنیادی حقوق، روزگار اور تفریح کے مواقع یکساں طورپر ارزاں ہیں، خوشحالی ہے، سچ کا بول بالا ہے، شہریوں اور ان کی پرائیویسی کو تحفظ حاصل ہے اور عوام کی حاکمیت کا جادو سرچڑھ کر بولتا ہے، وہاں تنظیم اور قانون کی پابندی کے علاوہ شہریوں کے درمیان باہمی محبت بھی کارفرما ہوتی ہے اور انہیں اپنی اور دوسروں کی زندگی کی قدر بھی ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے برعکس جن ممالک میں آبادی بے ہنگم طریقےسے بڑھتی ہے، سوچ اورعلم و آگہی کے دریچے مقفل ہیں، تنگ نظری اور گھٹن کا ماحول ہے، جھوٹ کی حکمرانی ہے، صحت اور تعلیم کی سہولتیں عنقا ہیں، انصاف، مساوات، بنیادی حقوق، روزگاراور تفریح کے مواقع خواب ہیں، کوئی بھی دوسروں کی پرائیویسی میں بے بلا تکلف دخل دے سکتا ہے، اپنے نظریاتی مخالفین کوبلا جھجھک غدار یا کافر قراردے سکتا ہے، ریاستی وسائل چند نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہیں، بھوک اور ننگ عام ہیں اور عوام کی رائے کو چند طاقتور اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، وہاں فرد کو دوسروں تو کیا، خود اپنی زندگی کی پروا بھی کم ہی ہوتی ہے۔

آپ ایسے ممالک میں ٹریفک کا حال دیکھ لیں کہ لوگ کس خطرناک طریقے سے اپنی اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈال کر گاڑی یا موٹرسائیکل چلاتے ہیں۔ کرونا وائرس کے حالیہ بحران کے حالات بھی ملاحظہ فرما لیں، اگرچہ یہ انسانیت کی سخت تذلیل ہے لیکن اگر ڈنڈے مار مار کر پولیس اور فوج لاک ڈاؤن پرعمل نہ کرائیں تو جگہ جگہ بھرپور محفلوں کے ساتھ ساتھ اپنی اور دوسروں کی جانوں کی پروا کیے بغیر دکانوں، شادی ہالوں اور ہوٹلوں وغیرہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ بچے۔

تبلیغ ایک احسن عمل ہے مگر ان نازک ترین حالات میں ملتوی کرنے کی بجائے رائے ونڈ میں دو روز تک تبلیغی اجتماع جاری رہا۔ حکومت کو ہوش آیا تواس کی درخواست پر اجتماع تو ختم ہو گیا مگروہ ٹولیوں کی شکل میں ملک بھر میں پھیل گئے۔پنجاب حکومت کے ترجمان مسرت جمشید نے میڈیا کو بتایا کہ ان لوگوں میں سے کئی میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

ادھرلاک ڈاؤن سے بے نیاز ہر نوع کے گداگروں کو گھروں میں گھس کر اور ٹولیاں بنا کر مانگنے کی کھلی چھٹی ہے۔ ایسی بدقسمت سرزمینوں میں لوگوں کی سیاسی اور مذہبی وابستگی میں ہیجان پیدا کر کے اور اشتعال کے انگارے بھر کر شدت پسندی، لاقانونیت، قتل و غارت اور وبائی امراض سے موت کو فروغ دینا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا۔

کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حرم میں طواف بند ہے، کئی مسلم ممالک میں بھی مساجد بند اور نماز جمعہ پر پابندی ہے مگر یہاں معروف روحانی ہستیاں اس پرمتفق نہیں ہو سکیں۔ کوئی پیشوا کرونا کو مسلمانوں کے مذ ہبی جذبات ماند کرنے کے لیے امریکی سازش بتا رہا ہےاور کوئی فرما رہا ہے یہ وبا امریکہ اوراسرائیل کی لیبارٹریوں میں مسمانوں کو ختم کرنے کے لیے تیار ہوئی ہے۔

کوئی نجومی یہ بیماری کسی مخصوص وقت تک خود بخود ختم ہونے کی پیشگوئی کر رہا ہے اور کوئی زود فہم اسے سرے سے انسانی وہم اور پراپیگنڈا قرار دے رہا ہے۔

یہاں ان غیرمنطقی اورغیرسائنسی باتوں پر یقین رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ اغیار اپنی جدید لیبارٹریوں میں اس وبا پر جدید سائنس کی روشنی میں تحقیق کر رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں پھونکوں سے بھی اس کا علاج کرنے والوں کی کمی نہیں۔ ادھر حکومت کی سنجیدگی بھی دیکھ لیں کہ خود سائنس و ٹیکنالوجی کے فوکل پرسن ڈاکٹرعطاء الرحمٰن کہتے ہیں کہ روزانہ 30 سے 40 ہزارلوگوں کے کرونا ٹیسٹ نہ کیے گئے تو یہ وبا ملک میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل جائے گی، جبکہ عملی طور پر  22 کروڑ کے ملک میں روزانہ تین ہزار ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے ’کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ‘ نے بھی خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس کے اثرات پاکستان کے لیے شد ید ہوں گے۔‘

فکر و تدبر اور مکالمے سے یہ راز بھی کھلے گا کہ ایسے تمام مسائل میں بے تحاشا آبادی اُم المسائل کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں آبادی 2.4 فیصدکی خوفناک شرح سے بڑھ رہی ہے، ان میں وطن عزیزکےعلاوہ افغانستان، ایتھوپیا، موزمبیق، نائجیریا، لائبیریا، انگولا، کانگو، چاڈ، برکینا فاسو، عراق، مالی اور گنی بساؤ جیسے ممالک شامل ہیں۔

ان ممالک میں امن وامان، کی صورت حال، تعلیم و صحت، بنیادی سہولتوں، انصاف، فی کس آمدنی، غربت کی شرح، نظم و ضبط، عام آدمی کی عزت نفس، لاقانونیت، جہالت و جذباتیت اور نامعقولیت جیسی بلاؤں پر تبصرے کی ضرورت ہی نہیں کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ ایسی بدقسمت سرزمینوں میں لوگوں کی سیاسی اور مذہبی وابستگی میں ہیجان پیدا کر کے اور اشتعال کے انگارے بھر کر شدت پسندی، قتل و غارت اور وبائی امراض سے موت کو فروغ دینا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا۔

ایسا لگتا ہے کہ پچھلی سات دہائیوں میں وطن عزیز نے صرف چار شعبوں میں حقیقی ترقی کی ہے۔ آبادی کا عفریت، بیڈ گورنس، تعلیم کی بیخ کنی اور گداگری کی صنعت۔ ان معاملات میں ہماری تمام حکومتیں ایک ہی پیج پر رہی ہیں اور ایسے ’قابل رشک‘ حالات میں کوئی معجزہ ہی ہمیں کرونا وائرس سے بچا سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ