تنخواہیں نہ کرونا سے بچاؤ کے لیے کٹس: ڈاکٹروں کی حالت زار

تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے معاملے پر جناح ہسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمیں جمالی کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ کی طرف سے ڈاکٹروں کی تنخواہیں ادا کر دی گئی ہیں نیز انٹرن شپ پر موجود ہاؤس آفیسرز کو تنخواہ نہیں سٹائپینڈ دیا جاتا ہے۔

(علی زریاب)

پچھلے کئی روز سے سوشل میڈیا پر ایک تصویر ٹرینڈ کر رہی ہے جس میں ایک خاتون  ڈاکٹر منہ پر کالا کپڑے کا ماسک لگائے، کرسی پر سر جھکائے بیٹھی ہیں۔

 یہ تصویر فرسٹ کلاس کرکٹر علی زریاب نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شائع کی اور اس میں لکھا کہ ’میری کزن کراچی کے عباسی شہید ہسپتال میں کرونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن پر کام کرنے والی ڈاکٹر ہے۔ اس ہسپتال کے ڈاکٹرز پچھلے تین ماہ سے بغیر تنخواہ اور حفاظتی سامان کے چھتیس گھنٹوں سے ذائد کی ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ انہوں نے حفاظتی سامان بھی اپنے پیسوں سے خریدا ہے۔‘

اس تصویر کو دیکھنے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے عباسی شہید ہسپتال کے ہاؤس ڈاکٹرز سے رابطہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ آخر انہیں کن مسائل کا سامنا ہے۔

تنخواہوں کی عدم ادائیگی

 کچھ ڈاکٹرز نے ہم سے بات کی لیکن انہیں ڈر تھا کہ کرونا وائرس کے باعث اِن مشکل حالات میں اپنے مسائل بتانے اور اپنی شناخت ظاہر کرنے کی وجہ سے کہیں ہسپتال انتظامیہ انہیں نوکری سے نہ نکال دیں۔

ایک ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ اس وقت عباسی شہید ہسپتال میں 250 ہاؤس ڈاکٹرز ہیں جنہیں جنوری کے مہینے سے اب تک ایک بھی تنخواہ نہیں ملی ہے اس کے باوجود بھی ان سے چھتیس گھنٹوں کی ڈیوٹی کروائی جاتی ہے۔ ہسپتال کی جانب سے انہیں اب تک کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی سامان بھی نہیں دیا گیا ہے اس لیے ڈاکٹرز کالی بڑی تھیلیاں اور خود خریدے ہوئے ماسک پہننے پر مجبور ہیں۔

کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ماتحت چلنے والا یہ شہرا کا تیسرا بڑا سرکاری ہسپتال ہے جو کراچی کے گنجان آباد علاقے پاپوش نگر میں واقع ہے۔

گزشتہ سال سندھ حکومت کی ہدایت پر ہاؤس ڈاکٹرز کی تنخواہیں بڑھا کر پینتالیس ہزار اور پوسٹ گریجوئیٹ ٹریننگ ڈاکٹرز کی تنخواہیں پچھتر ہزار کردی گئیں تھیں لیکن اس ڈاکٹر کے مطابق عباسی شہید ہسپتال میں اب تک اس ہدایت پر عمل نہیں کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرز کو پرانے پے رول کے حساب سے ہی تنخواہ دی جاتی ہے جو کہ جنوری کے مہینے سے ادا نہیں ہوئی۔

 ڈاکٹر نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ ’کئی پوسٹ گریجوئیٹ ٹرینی ڈاکٹرز جو عباسی شہید ہسپتال سے اپنی چار سال کی روٹیشن کرکے جاچکے ہیں انہیں ابھی بھی ایک سال کی تنخواہ نہیں ملی ہے۔ ہاؤس آفیسرز جو صرف ایک سال کے لیے داخل کیے جاتے ہیں انہیں چھ سے سات ماہ کی تنخواہ نہیں ملتی۔ پچھلے سال کئی دن تک احتجاج کرنے کے باعث ہمیں ہماری دسمبر کی تنخواہ مل گئی تھی لیکن اس کے بعد سے اب تک ہمیں ایک بھی تنخواہ نہیں ملی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس معاملے میں عباسی شہید ہسپتال کے ڈی ایم ایس ڈاکٹر طاہر کا کہنا تھا کہ 'ڈاکٹرز کہ تنخواہ کا معاملہ ہم حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جہاں تک حفاظتی سامان کی بات ہے، حکومت سندھ کی جانب سے جو ماسک کے ڈبے موصول ہوئے ہیں ان میں این نائنٹی فائیو ماسک نہیں ہیں، عام ماسک ہیں۔ ہمارے پاس جو حفاظتی سامان ہے وہ ہم صرف ضرورت کی بنیاد پر ڈاکٹرز کو دے رہے ہیں۔'

ینگ ڈاکٹرز کو تنخواہیں نہ ملنے کے معاملے پر جناح ہسپتال کے ڈاکٹر عمر سلطان نے ہمیں بتایا کہ اس ہسپتال میں بھی ہاؤس آفیسرز کو پچھلے تین ماہ اور پوسٹ گریجوئیٹ ٹرینی ڈاکٹرز کو دو ماہ کی تنخواہیں نہیں ملی ہے۔

اس سے قبل سوشل میڈیا پر ہم نے جناح ہسپتال کی ایک اور ڈاکٹر مہ جبین سلیم کی بھی ایک پوسٹ دیکھی جس میں انہوں نے لکھا ہوا تھا کہ ’کل میں جناح ہسپتال میں چھتیس گھنٹوں کی ڈیوٹی پر تھی اور مجھے یہ لگتا ہے کہ ڈاکٹر بن کر میں نے اپنی زندگی ضائع کردی۔‘

جناح ہسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمیں جمالی سے ہم نے اس معاملے کی تصدیق کی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے ہسپتال میں مہ جبیں سلیم نامی کوئی ڈاکٹر نہیں ہیں اور چھتیس گھنٹوں کی ڈیوٹی کی بات غلط ہے، ہمارے ہسپتال میں ڈاکٹرز صرف چھ گھنٹوں کی ڈیوٹی کر رہے ہیں۔

تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے معاملے پر ڈاکٹر سیمیں جمالی کا کہنا تھا کہ ’تنخواہیں حکومتِ سندھ کی جانب سے ملتی ہیں، ہمارے ہسپتال میں سب کی تنخواہیں ادا کردی گئی ہیں۔ جہاں تک ہاؤس آفیسرز کی بات ہے تو وہ انٹرن شپ پر رکھے جاتے ہیں اور انہیں تنخواہ نہیں سٹائیپینڈ دیا جاتا ہے۔ مجھے بہت حیرانی ہوتی ہے جب یہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں اور ایسی کون سی مشکل پڑگئی، کون سا ان کی تنخواہوں سے گھر چل رہے ہیں۔ ہم سب نے تو بغیر تنخواہ کے کام کیا تھا۔‘

ڈاکٹرز حفاظتی سامان کی جگہ کالی تھیلیاں پہننے پر مجبور

دنیا کے مختلف ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے پرسنل پروٹیکٹو ایکوئیپمنٹ کِٹ (پی پی ای کٹ) دی جاتی ہیں جس میں عام طور پر ڈسپوز ایبل گاؤن، گلووز، جوتوں کے کوور، گوگلز ،فیس شیلڈ اور این نائنٹی فائیو ماسک شامل ہوتا ہے۔  

عباسی شہید ہسپتال کے ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ انہیں اب تک ہسپتال کی جانب سے حفاظتی کٹ نہیں دی گئی ہے جب کہ روزانہ کی بنیاد پر یہ ڈاکٹرز کرونا وائرس کے کئی مشتبہ مریضوں کو دیکھتے ہیں۔

ایک ڈاکٹر کہنا تھا کہ ’حفاظتی کٹ کافی مہنگی آتی ہے، صرف این ںائنٹی فائیو ماسک ہی دو ہزار روپے کا آتا ہے۔ ہمیں تو تنخواہیں ہی نہیں ملتیں تو ہم کٹ کہاں سے خریدیں گے؟ اس لیے ہم مریضوں کے پاس جانے سے پہلے گاؤن کی جگہ تھیلیاں پہنتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ینگ ڈاکٹز ایسوسی ایشن اور کچھ دیگر فلاحی اداروں کی جانب سے ہمیں کچھ سرجیکل ماسکس، گلوز، اور گوگلز دیے گئے تھے ہم وہ ہی ابھی تک استعمال کر رہے ہیں۔  ہمارے پاس چند گوگلز ہیں جو ڈاکٹرز آپس میں شئیر کرتے ہیں، یہ کافی مہنگے آتے ہیں اس لیے ہر کوئی اپنے لیے خرید نہیں سکتا۔‘

عباسی شہید کے ڈاکٹرز کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے ان کے ہسپتال کو جو دو ہزار این نائنٹی فائیو ماسک دیے گئے تھےوہ بھی ابھی تک انہیں نہیں ملے ہیں۔

چند روز قبل سندھ حکومت کی جانب سے سندھ بھر میں ایک لاکھ این نائنٹی فائیو ماسک تقسیم کرنے کی ہدایت جاری کی گئی۔ سرکاری نوٹیفیکیشن کے مطابق کراچی کے تمام اضلاع میں آٹھ آٹھ سو ماسک تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کے بیس مختلف ہسپتالوں میں پانچ ہزار سے ایک ہزار کے درمیان این نائنٹی فائیو ماسک تقسیم کیے گیے ہیں۔ اس فہرست میں عباسی شہید ہسپتال بھی شامل ہے جسے حکومت کی جانب سے دو ہزار ماسک فراہم کئے ہیں لیکن ڈاکٹرز کے مطابق ان تک یہ ماسک نہیں پہنچے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت