جب رومیو، جولیٹ کے کردار نبھاتے اداکاروں کے دماغ سوگئے

ایک نئی سائنسی تحقیق کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ دماغ کے بعض حصے اداکاری کرتے ہوئے زیادہ فعال ہو جائیں گے لیکن ادھر تو سارے نتائج ہی الٹ ہوگئے۔

سائنس دان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ رومانوی کرداروں سے لے کر مذہبی مکالمے ادا کرنے تک، تجربے میں شامل تمام اداکاروں کے دماغ رومیو اور جولیٹ کے دماغوں میں ڈھل چکے تھے۔

کوئی بھی کردار ٹھیک سے ادا کرنے کے لیے اداکاروں کو اپنے دماغ کا ایک حصہ زبردستی سلانا پڑتا ہے۔

اس مفروضے کی جانچ کے لیے بہت سے اداکاروں کو دماغ کا سکین کرنے والی مشین میں لٹایا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ وہ رومیو ہیں یا جولیٹ؟ یہ سوال شیکسپیئر کے اس ڈرامے میں شامل مشہور زمانہ بالکونی والے منظر کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جا رہا تھا (وہ منظر جس میں رومیو باہر موجود ہوتا ہے اور جولیٹ اپنے گھر کی بالکونی پر کھڑی اس سے مکالمے بول رہی ہوتی ہے)۔

سائنس دان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ رومانوی کرداروں سے لے کر مذہبی مکالمے ادا کرنے تک، تجربے میں شامل تمام اداکاروں کے دماغ رومیو اور جولیٹ کے دماغوں میں ڈھل چکے تھے، یعنی وہ خود کو رومیو یا جولیٹ ہی محسوس کر رہے تھے۔

بنیادی طور پر یہ نتیجہ دیکھنے کے بعد ہی محققین کو اندازہ ہوا کہ ڈراموں یا فلموں میں کردار ادا کرنا صرف سکرپٹ رَٹ لینے کا نام نہیں ہوتا، اس میں دوسرے بہت سے معاملات بھی شامل ہوتے ہیں۔

 کینیڈا کی میک ماسٹر یونیورسٹی میں کام کرنے والے ماہر نیورات ڈاکٹر سٹیو براؤن کی اس تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ موسیقی سنتے ہوئے، دوران رقص یا آرٹ کے دوسرے مظاہر سے لطف اندوز ہونے کے درمیان انسانی دماغ کن کیفیات سے گزرتا ہے۔

چونکہ ڈرامہ کرتے ہوئے اداکاروں کی دماغی سرگرمی کبھی تحقیق کا موضوع نہیں بنی تھی، اس لیے ڈاکٹر براؤن نے یونیورسٹی سے وابستہ چند نوآموز اداکاروں سے اس تجربے میں شامل ہونے کی درخواست کی۔

 برازیل میں اپنے ایک سفر کے دوران جب انہوں نے قبائلی لوگوں کی مذہبی تقریبات دیکھیں، ان کو حالت وجدان میں دیکھا، سرمستی میں رقص کرتے دیکھا تو انہیں لگا کہ شاید اداکار بھی انہی کیفیات کا شکار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر براؤن کے مطابق ’مجھے لگا کہ اداکاری بھی ایک ایسی ہی ایک کیفیت ہے، جس میں آپ کے اوپر کوئی دوسری روح حاوی ہو جاتی ہے۔ جب آپ بالکل اسی طرح کی حرکتیں کرنے لگتے ہیں، جیسی آپ کے جسم پر قبضہ کرنے والی روح تقاضا کرتی ہے۔‘

 یہ سب جاننے کے بعد ڈاکٹر براؤن کو اندازہ ہوا کہ ان کے تجربوں کا مکمل نتیجہ ہی بدل چکا ہے اور جو کچھ انہوں نے سوچا تھا، نتائج اس سے کافی مختلف تھے۔

عام طورپہ وہ لوگ اپنے تجربوں کے درمیان یہ دیکھتے تھے کہ انسانی دماغ کے وہ کون سے حصے ہیں جوکسی کام کے دوران زیادہ فعال یا مستعد ہو جاتے ہیں، لیکن اس معاملے میں سارے نتائج ہی الٹ تھے اور کوئی مخصوص کردار خود پر حاوی کرلینے کے بعد دماغ کے بعض حصوں کی سرگرمی پہلے کی نسبت بہت کم ہوتی ہوئی محسوس کی جا رہی تھی۔

ڈاکٹر براؤن کے مطابق ’ہمارے پاس پہلے سے اس طرح کے تجربے اور ان کے نتائج کے متعلق کوئی ٹھوس سائنسی معلومات نہیں تھیں۔ اسی وجہ سے ہم کوئی پیش گوئی بھی نہیں کر سکتے تھے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ان کا خیال تھا کہ دماغ کے بعض حصے اداکاری کرتے ہوئے زیادہ فعال ہو جائیں گے لیکن ادھر تو سارا کام ہی الٹا تھا۔ انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بھی مخصوص کردار نبھاتے ہوئے اداکاروں کے دماغ کے بعض حصے سو چکے ہیں۔ ان کی پوری ٹیم کے لیے یہ نتیجہ بہت زیادہ حیران کن تھا۔‘

اس تجربے میں شامل لوگوں کو چار مرتبہ ایم آر آئی مشین میں لیٹنا تھا۔ ایک مرتبہ انہیں بالکل وہی کردار ادا کرنا تھا جیسے وہ عام زندگی میں تھے، دوسری مرتبہ انہیں مشین سے گزرتے ہوئے ایک برطانوی انگریز کا کردار نبھانا تھا جبکہ تیسری اور چوتھی مرتبہ انہیں رومیو یا جولیٹ کے کردار خود پر طاری کرتے ہوئے چند سوالوں کے جواب دینے تھے۔  

صرف شیکسپیئر کا کردار ادا کرتے ہوئے رضاکاروں کے دماغ کا ایک حصہ باقاعدہ طور پر غیر فعال ہوتا محسوس کیا گیا۔

برازیل کے وہ قبائلی جو وجدانی کیفیت میں ناچتے یا غیر مرئی طاقتوں کے اشاروں پر عجیب و غریب حرکتیں کرتے نظر آتے تھے، ڈاکٹر براؤن کو ایسا لگا جیسے ان اداکاروں میں بھی عین اُسی طرح اپنی ہستی کا احساس مٹ چکا ہے۔

یہ تحقیق اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور اس کے نتائج ’رائل سوسائٹی اوپن سائنس‘ نامی جریدے میں شائع بھی ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر براؤن اور ان کی ٹیم کے مطابق کوئی کردار نبھاتے ہوئے افراد کے دماغی مطالعے کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ کردار روزمرہ زندگی سے وابستہ بھی ہو سکتے ہیں اور انہی میں سٹیج پر کی جانے والی اداکاری بھی شامل ہے۔  

زیادہ پڑھی جانے والی فن