کرونا وائرس: حکومت کے پاس فنڈز کہاں سے آ رہے ہیں؟

عمران خان کہتے رہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی صورت حال اتنی اچھی نہیں کہ معاشی بحران کا مقابلہ کیا جا سکے جس پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت کے پاس امدادی پیکج کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟

احساس پروگرام کے تین حصے ہیں: کفالت، تحفظ اور روزگار (اے ایف پی)

دنیا بھر کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہے، کاروبار نہیں ہیں، دہاڑی دار بے روزگار ہیں جس کے پیش نظر مختلف ممالک میں ایسے افراد کی مختلف انداز میں مدد کی جا رہی ہے۔

وزیر اعظم پاکستان نے بھی گذشتہ ماہ 24 مارچ کو کرونا وائرس کے باعث مالی مشکلات کے لیے 1.2 کھرب روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا۔

عمران خان نے ساتھ ہی غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے افراد کے لیے کیش گرانٹس کا بھی اعلان کیا تھا۔

وہ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی صورت حال اتنی اچھی نہیں کہ معاشی بحران کا مقابلہ کیا جا سکے، مگر اس کے ساتھ ہی حکومت پاکستان اربوں روپے کی مالی امداد غریب افراد میں بانٹے گی جس پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ شدید مالی مشکلات کے باوجود حکومت کے پاس کے پاس پیسہ کہاں سے آیا؟

گذشتہ سال جب وفاقی بجٹ کا اعلان کیا گیا تھا تو اس میں سوشل پروٹیکشن پروگرام کے لیے کل 187 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جن میں سے 180 ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام/احساس پروگرام کے لیے تھے۔

احساس پروگرام کا آغاز تمام سماجی خدمت کے منصوبوں بشمول بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ایک چھت کے نیچے لانے کے لیے کیا گیا تھا۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام/احساس پروگرام کے لیے مختص 180 ارب روپوں میں سے 167.5 ارب روپے حکومت پاکستان کی طرف سے تھے جب کہ باقی 12.5 ارب روپے ڈونرز کی طرف سے ہیں۔

احساس پروگرام کے تین حصے ہیں: کفالت، تحفظ اور روزگار۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے مطابق ’کفالت ان لوگوں کے لیے ہے جن کی سروے کے ذریعے سے نشاندہی ہوتی ہے، جب کہ تحفظ ان لوگوں کے لیے ہے جن پر اچانک کوئی آفت آ جائے۔‘

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے غریبوں کی کفالت کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں سے 128 ارب روپے کیش گرانٹ کے طور پر مختص ہیں جب کہ تحفظ پروگرام کے لیے 7.3 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔

رواں سال 24 مارچ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے 1.2 کھرب روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا جس میں کرونا وائرس کے باعث حالات کی وجہ سے غریبوں کے لیے 150 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔

غریبوں کو مالی مدد احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے ذریعے ہو گی جس کے مطابق 1 کروڑ 20 لاکھ سے 1 کروڑ 30 لاکھ خاندانوں کو فی خاندان کل 12 ہزار روپے ایک بار چار مہینوں کے لیے ادا کیے جائیں گے۔

اس پروگرام کی سربراہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے مطابق اس پروگرام کی فی الحال کل لاگت 144 ارب روپے ہے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے مطابق کل لاگت میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے مطابق احساس ایمرجنسی کیش پروگرام پاکستان کی تاریخ کا ’سب سے بڑا‘ سماجی تحفظ پروگرام ہے۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پاس موجود مالی سال کے لیے کل 180 ارب روپے کا بجٹ تھا جب کہ احساس ایمرجنسی کیش پروگرام جو کہ صرف چار ماہ کے لیے ہے اس ہی کی کل لاگت 144 روپے ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا موجودہ بجٹ اس ضرورت کو پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق ممکنہ امداد حاصل کرنے والے 1 کروڑ 20 لاکھ خاندانوں میں سے 45 لاکھ خاندان وہ ہیں جو پہلے ہی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ان کے علاوہ 40 لاکھ وہ دہاڑی دار ہیں جو کہ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں مگر بے نظیر انکم سپورٹ پرگروام سے مستفید نہیں ہو رہے ہیں جب کہ 35 لاکھ وہ خاندان ہیں جن کی نشاندہی ضلعی انتظامیہ کرے گی۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس تمام کام کے لیے 108 ارب روپے درکار تھے جن میں 36 ارب روپے پہلے ہی پروگرام کے پاس بطور سیونگز (بچت) موجود تھے جب کہ اضافی 72.9 ارب روپے کے لیے وزارت خزانہ کو سپلیمنٹری گرانٹ کی درخواست دی جا چکی ہے۔

اضافی 72.9 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری اقتصادی رابطہ کمیٹی 30 مارچ کو دے چکی ہے اور یہ رقم وزیر اعظم کی جانب سے کرونا وائرس کے لیے 1.2 کھرب روپے کے امدادی پیکج کا حصہ ہے۔

36 ارب روپے کی بچت میں وہ رقم بھی شامل ہے جو کہ پروگرام نے گذشتہ سال سکروٹنی کے بعد ان افراد کو فہرست سے نکالا تھا جو کہ امداد کے حقدار نہیں تھے۔

معروف امریکی بزنس مین بل گیٹس نے بھی ستمبر 2019 میں سال 2020 کے لیے احساس پروگرام کو دو سو ملین ڈالرز (31 ارب روپے کے قریب) عطیہ کرنے کا اعادہ کیا تھا۔ یہ واضح نہیں کہ یہ رقم بھی ایمرجنسی کیش پروگرام کے لیے استعمال ہو گی یا نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت