ہمت کرو اور آگے بڑھو

اگر ہم نے کرونا بحران کے دوران اپنی زراعت کو بچا لیا تو ہم اپنی آبادی کو بچا لیں گے اور اگر آبادی بچ گئی تو معیشت دوبارہ کھڑی ہو سکتی ہے۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہماری معیشت میں زراعت جیسے بنیادی سیکٹر کرونا سے متاثر نہیں  ہوں گے(اے ایف پی)

ہمارے بدترین خدشات کے عین مطابق آج پاکستان کرونا (کورونا) کی زد میں ہے۔ ملک کا کوئی حصہ اب اس سے محفوظ نہیں۔ تفتان، رائیونڈ کا تبلیغی اجتماع، خلیجی ممالک، یورپ اور امریکہ سے بغیر سکریننگ، ٹیسٹنگ اور قرنطینہ کے آئے ہوئے ہزاروں افراد اب اس ملک میں مقامی طور پر کرونا پھیلانے کا موجب بن چکے ہیں۔

یہ بری خبر ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ کئی ہفتے پاوْں گھسیٹنے اور کوئی موثر ادارہ جاتی رد عمل نہ دینے کے بعد اب قومی سطح پرنیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نامی ایک نسبتاً موثر ادارہ بن گیا ہے، جس میں وفاقی اور صوبائی انتظامیہ اور فوج کے اہم اداروں کے نمائندے موجود ہیں۔

اچھی خبر تو یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جو کل تک لاک ڈاؤن کی مخالفت کر رہے تھے عملی طور پر الگ تھلگ ہو گئے ہیں۔ نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی جس کی سربراہی اب اسد عمر کر رہے ہیں، ایک طرف صوبائی قیادت کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تو دوسری طرف وہ نوزائیدہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے ساتھ جڑ کر کام کر رہی ہے۔ صوبوں اور وفاق کے درمیان روابط کے کچھ مسائل اب بھی موجود ہیں لیکن ایک بحرانی ماحول میں یہ مسائل ہوتے ہیں۔

اب وفاقی سطح پر ایک چھت کے نیچے مختلف ادارے موجود ہیں اور تمام تر کام کی نگرانی اور رابطے کا کام ایک جگہ سے ہو رہا ہے۔ موجودہ بحران میں ایک ہی کھڑکی سے تمام کام کی نگرانی اور عمل در آمد ہونا بھی ایک غنیمت ہے۔

اب جب کہ پورے ملک میں کرونا مریضوں کی مصدقہ تعداد ڈھائی ہزار کے قریب اور مشتبہ تعداد اس سے 10 گنا زیادہ ہے، مقامی طور پر وائرس کے پھیلنے میں شدت آ رہی ہے اسی لیے اب انتظامیہ بڑے شہروں اور مختلف علاقوں میں سختی سے لاک ڈاؤن پر عمل پیرا ہو رہی ہے۔ پہلے سندھ حکومت اور بعد میں باقی صوبائی حکومتوں نے لاک ڈاؤن سے لے کر مساجد میں جمعے اور دوسری نمازوں کے اجتماعات کو محدود کرنے کے انتظامات کیے اور اب وفاقی حکومت اور اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس پر دستخط ثبت کر دیے ہیں۔

یہ بات اب کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ عمران سرکار نے اس پورے سانحے میں آگے بڑھ کر قائدانہ کردار ادا کرنے کی بجائے رد عمل کا مظاہرہ کیا اور ان تمام لوگوں اور اداروں کی راہ میں، جن میں سندھ حکومت بھی شامل ہے، روڑے اٹکانے کی کوشش کی۔ حزب اختلاف کی تعاون کی تمام پیشکشوں کو عمران سرکار ٹھکرا چکی ہے۔

حکومت کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان کا حزب اختلاف کے قائدین کو سنے بغیر چلے جانا اس کی ایک مثال ہے لیکن ساتھ ہی اصرار کے باوجود مشترکہ مفادات کونسل کے آئینی ادارے کو مسلسل نظر انداز کرنا اور اسے معطل رکھنا، عمران سرکار کی ترجیحات کو ظاہر کرتا ہے۔ اب تمام تر معاملات نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مخلوط نظام سے چلائے جائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حزب اختلاف نے اب جو کچھ بھی کرنا ہے وہ اپنے طور پر کرنا ہے۔ عمران سرکار سے کوئی توقع رکھنا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر کام کرے، خام خیالی ہو گی۔ حزب اختلاف کو سندھ، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں اپنی حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ، غیر سرکاری طور پر فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر ہی عوام کی آگاہی اور مدد کے پروگرام بنانے ہوں گے۔

اس وقت اہم بات 20 ہزار سے زائد مشتبہ کرونا کیسز کی ٹیسٹنگ، کرونا کے مصدقہ افراد کو صحت مند آبادی سے دور رکھنا اور وائرس کو پھیلنے سے روکنا ہے۔ اس ضمن میں طبی عملے کو حفاظتی سہولیات فراہم کرنا اہم ترین فریضہ ہے۔ آنے والے دنوں میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہو گی ورنہ ہم ایک بہت بڑے المیے سے دوچار ہو جائیں گے۔

گھروں میں قید آبادی کو خوراک اور ادویات کی رسد کو برقرار رکھنا دوسرا بڑا چیلنج ہے۔ اس پوری صورتحال میں تباہ حال معیشت اور بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری سے تنگ آئی ہوئی مخلوق کی ضروریات کا خیال رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ یہی وہ صورت حال ہے جس میں قومی اتفاق رائے اور قوم کے صاحب ثروت افراد، اداروں اور خیراتی تنظیموں کی مدد کی ضرورت ہو گی تاکہ ملک کسی انارکی کی طرف نہ چل پڑے۔

یہ ٹھیک ہے کہ رینجرز اور فوج سول انتظامیہ کی مدد کے لیے موجود ہیں لیکن لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کیے بغیر صرف ڈنڈے سے امن و امان قائم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر لوگ بھوکے اور بے روزگار ہوں گے تو تشدد، جرائم  اور انارکی جنم لے گی۔

کرونا کی عالمی وبا سے پہلے ہی پاکستان کی معیشت بدحالی کا شکار تھی لیکن اب جب کہ دنیا بھر میں کساد بازاری کا دور دورہ ہے تو تمام عالمی معاشی ادارے اور ماہرین معاشیات پاکستانی معیشت کے مزید خراب ہونے اور بے روزگاری اور غربت میں اضافے کے خدشات بتا رہے ہیں۔

ابھی تک عمران سرکار نے اس سلسلے میں کچھ سائیڈ شو کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان نمائشی اقدامات سے زمینی صورتحال میں کوئی تبدیلی آنے کے امکانات نہیں۔ ان اقدامات میں ڈیم فنڈ کی طرز پر کرونا فنڈ کا اور ایک انتہائی متنازع ٹائیگر فورس کا قیام ہے۔ معاشی بدحالی اور سیاسی محاذ آرائی کے دور میں، ڈیم فنڈ کی بری شہرت کو سامنے رکھتے ہوئے، اس فنڈ میں کوئی بڑی رقم اکٹھی ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔

رہی سہی کسر متنازع ٹائیگر فورس کے قیام کی نوید ہے، جسے سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ فی الوقت اس فورس کی ٹی شرٹس کی تصویریں سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ملک میں پہلے ہی نسبتاً تربیت یافتہ غیر سرکاری تنظیموں اور خیراتی تنظیموں کا عملہ موجود ہے، مقامی حکومتوں کی مشینری موجود ہے لیکن ایسے میں ٹائیگر فورس جیسی نئی تنظیم کا قیام جسے حکمران جماعت کے ارکان اسمبلی تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں، موجودہ قومی بحران کے دور میں لوگوں کو تقسیم کرنے کی ایک اور کوشش لگتی ہے۔

اس طرح کے غیر تربیت افراد موجودہ بحرانی دور میں نئی پیچیدگیوں کو پیدا کرنے کا موجب بنیں گے جس کے ہم بطور قوم متحمل نہیں ہو سکتے۔ جمعے کی سہ پہر وزیر اعظم نے تعمیراتی صنعت سے متعلق نئی رعائتیں دینے کا اعلان کیا جن کا مقصد، ان کے بقول، رکے ہوئے معاشی پہیے کو چلانا ہے۔

ان تمام لوگوں کے لیے جن کے پاس کالا دھن ہے یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ تعمیراتی سرگرمی میں حصہ لیں اور ان سے ان کی اس آمدنی کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ ابھی یہ نہیں معلوم کہ ایف اے ٹی ایف اس پر کیا کہے گی، گرے لسٹ پر موجود ملک کی اس حیثیت پر اس کا کوئی اثر پڑے گا یا نہیں اور آئی ایم ایف اس پر کیا ردعمل دے گی۔

جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ تعمیراتی صنعت کو پچھلے دروازے سے ایک ایمنیسٹی سکیم دی گئی ہے۔ اس سے کیا تعمیراتی صنعت چل پڑے گی؟ یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو بے روزگاری کے موجودہ ماحول میں فائدہ ضرور ہوگا۔ البتہ کرونا کے موجودہ بحران میں یہ ضروری ہے کہ ان تعمیراتی کارکنوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔  سیمنٹ اور سریے پر ود ہولڈنگ ٹیکس برقرار رہے گا جبکہ تعمیرات میں یہ دونوں اشیا کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔

اس وقت سب سے اہم بات اپنی آبادی کو بچانا ہے۔ اگر آپ کے لوگ بچیں گے تو معیشت دوبارہ کھڑی ہو سکتی ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہماری معیشت میں ایسے سیکٹر بنیادی حیثیت نہیں رکھتے جو کرونا سے متاثر ہوں گے۔ مثال کے طور پر جو ملک سیاحت پر انحصار رکھتے ہیں ان کا سب سے نقصان ہو گا۔

ہم کیونکہ بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہیں اس لیے اگر ہم اپنی زراعت کو بچا پائیں تو ہم اپنی آبادی کو بچا پائیں گے۔ اس وقت گندم کی کٹائی اور ذخیرہ کرنے کے عمل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کرونا بحران کے سلسلے میں پچھلے ڈھائی ماہ جو کوتاہیاں ہوئی انہیں نہ دہرایا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر