کرونا کا دور: افغان شہریوں کو سرحد پار کرانے والے پاکستانی 'فرشتے'

طورخم بارڈر کے ذریعے وطن جانے والے افغان پناہ گزینوں کو گاڑیوں کا مسئلہ درپیش ہوا تو لنڈی کوتل کے نوجوانوں نے پہاڑوں پر گھنٹوں پیدل چل کر افغان شہریوں کا سامان اپنے کاندھوں پر اٹھا کر گاڑیوں تک پہنچایا۔

افغان حکومت کی درخواست پر پاکستانی حکومت نے طورخم بارڈر کو خیر سگالی کے تحت تین روز کے لیے افغان شہریوں کی وطن واپسی کے لیے کھولا۔ جب یہ افغان پناہ گزین لنڈی کوتل پہنچے تو وہاں کے نوجوانوں نے ان کا بھاری سامان اپنے کاندھوں پر اٹھایا۔

ان نوجوانوں کا کہنا تھا کہ افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، ہم ہر مصیبت میں افغانوں کے ساتھ ہیں اور ان کی مدد کریں گے۔ اس سے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان محبت بڑھتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بارڈر کو تین روز کے لیے کھولنے کی وجہ سے بڑی تعداد میں افغان پناہ گزین وطن واپسی کے لیے بارڈر پر پہنچے تھے، جنہیں گاڑیوں کا مسئلہ درپیش ہوا۔ گاڑیاں نہ ہونے کی وجہ سے ان کے پاس پہاڑی راستے سے پیدل جانے کا آپشن بچا۔ ان حالات میں لنڈی کوتل کے نوجوانوں نے پہاڑوں پر گھنٹوں پیدل چل کر افغان شہریوں کا سامان اپنے کاندھوں پر اٹھا کر گاڑیوں تک پہنچایا۔

کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے ہر جگہ ہوٹل بند پڑے ہیں اور پاکستان میں موجود افغان شہریوں کے ساتھ پیسے بھی ختم ہو چکے ہیں۔ ایسے میں لنڈی کوتل کے عوام جذبہ خیر سگالی کے تحت انہیں اپنے گھروں سے کھانا پینا بھی مہیا کر رہے ہیں جبکہ گھروں میں کھانا تیار کرکے پیدل جانے والے افغان شہریوں کو ساتھ بھی دیتے ہیں تاکہ راستے میں انہیں کھانے پینے کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔

لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ ارشاد آفریدی کا کہنا ہے کہ 'قدرت ہمیشہ ہمت والوں کا ساتھ دیتی ہے، قومیں مشکل وقتوں سے گھبراتی نہیں بلکہ یکجان ہو کر ان کا مقابلہ کرتی ہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'کرونا وائرس کی وبا سے بچنے کے لیے سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا، مصیبت کی اس گھڑی میں خیبر کے لوگ  افعانستان کے عوام کے ساتھ ہیں۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا