ایک مولانا کی دعا

'کبھی سوچتا ہوں کہ میرے ملک میں حیا کو کس نے تار تار کیا۔ میرے کچھ بھائی اس کا ذمہ دار عورت کو ٹھہراتے ہیں۔۔۔ یہ عورت والا منجن میں نے بھی بہت عرصے بیچا، اب اس کے گاہک کم ہو گئے ہیں۔'

(فائل تصویر: اے ایف پی)

یا اللہ! آج ہم تیری بارگاہ میں اپنی جھولی پھیلائے بیٹھے ہیں۔ ایک چھوٹے سے وائرس نے ہماری زندگی الٹ کر رکھ دی ہے۔ ہم اپنی دنیا کو تباہ و برباد کیے بیٹھے تھے، اب گھر بیٹھے اسے پھلتا پھولتا دیکھ رہے ہیں۔ شرمندہ بھی ہوتے ہیں پر کیا کریں، عادتیں اتنی پختہ ہو گئی ہیں کہ چھوٹنے سے بھی نہ چھٹیں۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ زمین ہم سے ایسے بدلہ لے گی۔ 

اے رب، تو نے ہم پر یہ کیسا عذاب بھیجا ہے۔ ہم نے سب کچھ کرکے دیکھ لیا لیکن یہ اب ہمارے بس کی بات نہیں۔ ہم نے چھتوں پر چڑھ کر اذان بھی دی، اذکار بھی کیے، صدقہ عطیات بھی دیے، مگر یہ وائرس ٹس سے مس نہ ہوا۔ ہم اپنی ہار مانتے ہیں، اب تو ہی اس کرونا کا کچھ کر۔ 

اے میرے رب، جانتا ہوں تو ہم سے ناراض ہے، تیرا ناراض ہونا بنتا بھی ہے، ہم نے ہمیشہ تیری حکم عدولی کی۔ تو نے جس کام سے ہمیں منع کیا ہم نے وہی کام کیا۔ تو نے ہمیں حرام سے روکا، ہم نے حرام کو ہی اپنا کاروبار بنا لیا۔ تو نے ہمیں سچ بولنے کا حکم دیا، ہم نے جھوٹ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ تو نے ہمیں ایمان داری اپنانے کا کہا، ہم نے سب سے پہلے اسے ہی کھڈے لائن لگایا۔

تو نے ہمیں انصاف کا سبق دیا، ہم نے اپنے ہی گھروں میں ظلم ڈھانے شروع کر دیے۔ کل پرسوں ایک خبر پڑھی، دل اب تک لرز رہا ہے۔ پشاور میں ایک آدمی نے اپنی سات سالہ بھتیجی کو شور مچانے پر گولی مار دی۔ بچی کا وہیں دم نکل گیا۔ اس سے ہفتہ قبل فیصل آباد کے ایک علاقے کوکیانوالا میں تین آدمیوں نے ایک عورت کو راشن کا لالچ دے کر گھر بلایا اور وہاں اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔

یا اللہ اب ایسی قوم پر تیرا عذاب نہ آئے تو پھر کیا آئے۔ ہم اس لیے تو اس زمین پر نہیں بھیجے گئے تھے۔ ہم تو اشرف المخلوقات قرار پائے تھے۔ ہم تو تیری کم ترین مخلوق سے بھی کم تر نکلے۔

دنیا کی کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں۔ ہم دھوکہ دینے میں اتنے استاد ہیں کہ سامنے کھڑا انسان بیچ دیں اور اسے کانوں کان خبر تک نہ ہو۔ ہم نے تو تیرے دین تک کو اپنا کاروبار بنا لیا۔ ہم نے تیرے دین کو بیچ بیچ کر اپنے محل کھڑے کیے اور بلٹ پروف گاڑیاں خریدیں۔ تجھے خوش کرتے کرتے اس دنیا کے بادشاہوں کو خوش کرنے میں لگ گئے۔ اب تو حال ایسا ہے کہ بادشاہِ وقت ایک اشارہ کرتا ہے اور ہم جھوٹ بولنا شروع کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اے میرے رب، ہمارے مدارس کا حال بھی تیرے سامنے ہے۔ اس بارے میں کچھ بولوں گا تو میرے ہی بھائی میرا بائیکاٹ کر دیں گے، پر سچ تو یہ ہے کہ آج لوگ اپنے بچوں کو مدارس میں داخل کروانے سے ڈرتے ہیں۔ ویسے تو مدارس سے کم ہی کوئی بات باہر نکلتی ہے، پر ظلم آخر کب تک چھپ سکتا ہے۔ اس دنیا سے چھپ بھی جائے تو تجھ سے تو نہیں چھپ سکتا۔

کبھی سوچتا ہوں کہ میرے ملک میں حیا کو کس نے تار تار کیا۔ میرے کچھ بھائی اس کا ذمہ دار عورت کو ٹھہراتے ہیں۔ میں جانتا ہوں وہ ایسا صرف اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کہتے ہیں۔ یہ عورت کو تہہ در تہہ کپڑے میں لپیٹتے ہیں، پھر بھی اسے فحش پاتے ہیں۔ اصل میں یہ فحاشی ان کے ذہنوں میں بسی ہوئی ہے۔ جب تک یہ اپنے ذہن صاف نہیں کریں گے تب تک انہیں عورت سات پردوں میں بھی فحش ہی دکھے گی۔

اے خدا، یہ عورت والا منجن میں نے بھی بہت عرصے بیچا، اب اس کے گاہک کم ہو گئے ہیں۔ وہ اب سوال کرتے ہیں۔ میرے پاس ان کے سوالوں کے جواب نہیں۔ کوئی جواب سوچوں بھی تو زینب، اسما، عائشہ، عمر اور کاشف کی ننھی منی لاشیں میری آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہیں۔ 

یا الٰہی! میرے دیس کے آدمی اپنی حیا بھول چکے ہیں۔ یہ سڑکوں پر چلتی عورتوں کو تنگ کرتے ہیں۔ کچھ اوباش تو انہیں دیکھ کر اپنے جنسی اعضا سہلانے لگتے ہیں۔ میں کس کی گردن میں یہ گناہ ڈالوں؟ یہ میری غلطی ہے۔ میں نے اپنی نوجوان نسل کو بھٹکایا۔ میں نے جب ان سے بات کرنا چاہی تو میری گفتگو حور کی پنڈلی سے آگے نہیں بڑھی۔ میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں۔

اے میرے رب، کسی بھی اچھے کام کی شروعات اپنے گھر سے کی جاتی ہے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے میں اپنی اصلاح کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ آج سے میں ایسے بیان نہیں کیا کروں گا۔ میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں۔ میری قوم بھی تجھ سے معافی مانگتی ہے۔ ہم سب پر اپنا کرم برسا اور اس وائرس سے ہمیں نجات دلا۔ آمین۔


نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ