’لوگ اپنے جانور مرنے دیتے ہیں لیکن ہم سے علاج نہیں کراتے‘

ملیے ملتان میں جانوروں کی معالج گل ناز اکرم سے جو مردوں کے عجیب و غریب کمنٹس سننے کے باوجود اپنے کام میں مگن ہیں۔

’یہ عورت ہمارے جانور کا علاج کرے گی؟ یہ نہیں کر سکتی ہے اور نہ ہی ہم کرنے دیں گے۔‘

ملتان میں شجاح آباد کے نواحی علاقے مقیم پور میں ویٹرنسٹ (جانوروں کی معالج) گل ناز اکرم کو اکثر ایسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔

گل ناز بتاتی ہیں: ’لوگ اپنے جانور کو تو مرنے دیتے ہیں لیکن ہماری بات نہیں مانتے۔ کچھ لوگ برا برتاؤ کرتے ہیں تو کچھ اچھا، ہم سب کی باتیں برداشت کرتے ہیں۔‘

اس شعبے میں اب خواتین آنے لگی ہیں لیکن فی الحال باقاعدہ پریکٹس کرنے والی خواتین معالجوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

گل ناز کو اس شعبے میں کام کرتے ہوئے تین سال ہو گئے ہیں اور ایک سال قبل انہوں نے اپنا وٹرنری کلینک بھی کھول لیا ہے۔

انہوں نے خواتین کے لیے روایتی شعبے چھوڑ کر ویٹرنری کا انتخاب کیا۔ یہ ان کا شوق تو تھا لیکن مجبوری بھی تھی۔

گل ناز نے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد یو ایس ایڈ کی طرف سے ویٹرنسٹ کا کورس کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’جب یو ایس ایڈ نے یہ منصوبہ شروع کیا تو میرے علاوہ ایک اور لڑکی بھی منتخب ہوئی۔ انہوں نے ایک ماہ ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی اور سامان وغیرہ فراہم کیا، جس کے بعد ہم نے کام شروع کر دیا۔ شروع شروع میں کافی مشکلات ہوئیں لیکن اب حالات یکسر مختلف ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کام کو سیکھنے کا ایک مقصد تو معاشی طور پر مضبوط ہونا تھا، دوسرا ’ہمارے گاؤں میں زیادہ تر لوگ ان پڑھ اور محنت مزدوری کرتے ہیں۔‘

’جب وہ مزدوری کے لیے باہر چلے جاتے اور اگر پیچھے ہمارے جانوروں کو کچھ ہو جاتا تو ہم علاج تک نہیں کروا سکتے تھے اور جانور ہماری آنکھوں کے سامنے مر جاتے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہمارا انحصار انہی جانوروں پر ہوتا ہے اس لیے اس شعبے کو منتخب کیا۔ میرے گھر والوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا۔‘

انہوں نے جانوروں کی بیماریوں کے حوالے سے بتایا کہ جانوروں میں عموماً جنوری اور مارچ میں منہ کھر کی بیماری ہوتی ہے جس کی دسمبر اور جنوری کے درمیان ویکسین لگا دیتے ہیں۔

’اسی طرح اپریل اور جون کے درمیان چوڑے مار بیماری کے زیادہ خدشات ہوتے ہیں، جس کی ویکسین مارچ، اپریل میں کی جاتی ہے۔ نومبر میں گل گھوٹو کی بیماری کے آنے کے خدشات ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ کام خواتین کے لیے آسان نہیں کیونکہ مرد حضرات عجیب و غریب کمنٹس پاس کرتے ہیں لیکن ہمیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا