مبینہ ریپ کے بعد بچوں کی لاشیں گاڑی میں رکھے جانے کا انکشاف

پولیس سرجن کے مطابق منگھوپیر میں پرانی گاڑی سے ملنے والی دونوں بچوں کی لاشوں کی حالت کافی خراب ہونے کی وجہ سے جسم پر کوئی نشانات نہیں ملے، تاہم ان کے سروں پر تیز دھار آلے سے چوٹ ماری گئی اور معائنے کے دوران ان کے سروں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ملی ہیں۔

پولیس نے گاڑی کے شیشے توڑ کر بچوں کو باہر نکالا تھا اور کارروائی کے بعد لاشیں ہسپتال میں منتقل کی گئی تھیں (تصویر: منگھوپیر پولیس)

کراچی کے علاقے منگھوپیر میں ایک ڈینٹر کی دکان کے باہر کھڑی پرانی گاڑی میں سے برآمد ہونے والی دو کمسن بچوں کی لاشوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بچوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو گاڑی میں رکھا گیا تھا۔

اس سے قبل پولیس نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ بچوں کی موت دم گھٹنے سے ہوئی ہے کیوں کہ ان کے جسم پر تشدد کے کوئی نشان موجود نہیں تھے۔ پولیس کی جانب سے دونوں بچوں کے ساتھ ریپ کیے جانے کا بھی شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

لاک ڈاؤن کے بعد ڈینٹر کی دکان کے باہر کئی روز سے کھڑی گاڑی کے اندر سے دانش اور عبید نامی ان بچوں کی لاشیں اس وقت برآمد ہوئی تھیں جب تعفن اٹھنے پر علاقہ مکینوں نے پولیس کو اطلاع دی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس نے گاڑی کے شیشے توڑ کر بچوں کو باہر نکالا تھا اور کارروائی کے بعد لاشیں کراچی کے علاقے ناظم آباد میں واقع عباسی شہید ہسپتال میں منتقل کی گئی تھیں، جہاں میڈیکو لیگل آفیسر (ایم ایل او) ڈاکٹر عابد ہارون نے لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے حوالے سے اسسٹنٹ پولیس سرجن عباسی شہید اسپتال ڈاکٹر محمد سلیم کا کہنا تھا کہ  'دونوں بچوں کے سروں پر تیز دھار آلے سے چوٹ ماری گئی ہے۔ لاشوں کی حالت کافی خراب ہونے کی وجہ سے جسم پر کوئی نشانات نہیں ملے تاہم معائنے کے دوران دانش اور عبید کے سروں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ملی ہیں۔'

پوسٹ مارٹم کے بعد دونوں بچوں کی لاشیں لواحقین کے حوالے کردی گئیں۔ بچوں کی عمریں چار اور سات سال بتائی گئی تھیں۔

ایس ایچ او منگھوپیر انسپکٹر گل محمد اعوان کے مطابق بچے 10 مئی سے لاپتہ تھے لیکن اس وقت والدین نے ایف آئی آر درج کروانے سے انکار کردیا تھا کیوں انہیں بچوں کے حوالے سے تاوان کی کوئی کال نہیں آئی تھی، تاہم بعد میں ایک بچے کے والد کی مدعیت میں اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا تھا اور اب پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد اس میں قتل کی دفعات بھی شامل کردی گئی ہیں۔

انسپکٹر گل محمد اعوان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آنے کے بعد بظاہر یہ دشمنی کا کیس لگ رہا ہے۔ کسی نے والدین سے دشمنی نکالنے کے لیے بچوں کو قتل کیا ہے۔ اس کے علاوہ ریپ کا کیس بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کا تعین فرانزک رپوٹ آنے کے بعد ہی کیا جاسکے گا۔ بچوں کی لاشیں کئی روز پرانی تھیں اور ان کی حالت کافی خراب ہو چکی تھی اس لیے ریپ کے نشان ظاہر نہیں ہورہے تھے۔'

انسپکٹر گل محمد اعوان کے مطابق دونوں بچوں کے خاندان پڑوسی ہیں اور ان کا تعلق پنجاب سے ہے۔ عبید کے والد گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس کی خریدوفروخت کا کام کرتے ہیں جبکہ دانش کے والد ریتی بجری کا کام کرتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان