کھٹی میٹھی گولیاں اور شہباز شریف

شہباز شریف کھٹی میٹھی گولیوں کے خالی ڈبوں کے انبار کے بیچ بیٹھے شیخ رشید کی شیخیوں سے بھری اور شوخیوں سے آراستہ پیشں گوئیوں کو سن رہے ہیں کہ عید کے بعد ان کا آستانہ جیل ہے۔

شہباز شریف کی یہ وضاحت حیران کن ہے کہ وہ 10 بھینسوں پر مبنی ڈیری فارم کی آمدن سے گزارہ کر رہے ہیں(اے ایف پی)

آپ کے خیال میں پچھلے چند ماہ میں دنیا میں سب سے زیادہ گولیاں کس کو دی گئیں؟ کرونا (کورونا) کے مریضوں کو؟ بالکل غلط۔ اس کا درست جواب ہے شہباز شریف کو اور وہ بھی نئی نئی۔

قائد حزب اختلاف جب سے لندن سے واپس آئے ہیں ان کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ اب تک ان گولیوں کے خمار کا شکار ہیں کہ ان کی طرف سے اپنایا جانے والا معاون و دوست کا رویہ ان کے ستم گروں کا دل اس حد تک موم کر دے گا کہ وہ اپنے موجودہ محبوب نااہل کو چھوڑ کر ان کو گلے لگا لیں گے۔ یعنی کوئی قومی حکومت وغیرہ بن جائے گی جس میں اگر شہباز شریف مرکزی کردار نہ بھی ہوں تو ان کے ذریعے ان کی جماعت یعنی مسلم لیگ ن ایک بڑی قوت کے طور پر اس کا اہم حصہ ضرور ہو گی۔

قومی حکومت بننے کا تو دور دور تک نشان نہیں۔ ہاں قومی احتساب بیورو کی طرف سے نئے ریفرنسز ضرور بن رہے ہیں۔ موجودہ تحقیقات پس پشت ڈالنے کی بجائے مزید تیز ہو رہی ہیں۔ ایک خبر کے مطابق آمدن سے زیادہ اثاثے کا ایک ریفرنس 7 ارب روپے کے مبینہ گھپلوں پر مبنی ہے جس کے مطابق فرنٹ مینوں کے اکاؤنٹس سے بھاری رقوم باہر بھیجی گئیں اور پھر واپس منگوا کر اس دھن کو قانونی بنایا گیا۔ آج کے اجلاس میں نیب چیئرمین نے اس ریفرنس پر فیصلہ کرنا ہے۔

شہباز شریف کی یہ وضاحت حیران کن ہے کہ وہ 10 بھینسوں پر مبنی ڈیری فارم کی آمدن سے گزارہ کر رہے ہیں۔ (یہ کون سی بھینسیں ہیں جو اتنا دودھ دیتی ہیں؟) مگر نیب اپنی تحقیقات کے مطابق ہی اس ریفرنس کو حتمی بنا رہی ہے۔ اس کی زد میں تمام شہباز خاندان ہے۔ ان کا بیٹا حمزہ شہباز تو پہلے ہی نیب کی گرفت میں ہے اور اب سلمان شہباز کا نام بھی اس ریفرنس میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ رائیونڈ اراضی کو مبینہ طور پر مختلف حیلوں سے مہنگے رہائشی علاقے میں تبدیل کرنے کا معاملہ بھی چھیڑ دیا گیا ہے جس کی تحقیقات میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد شامل ہوں گے۔

شہباز شریف کی جائیدادوں  سے لے کر ان کے کاروبار اور ان کے بچوں کے اثاثوں اور ملکیت تک کوئی مقدمہ ایسا نہیں ہے جو اب نیب کے ریڈار پر نہ ہو۔ یہی کچھ نواز شریف کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ اس پر شہباز شریف فیض احمد فیض کی شاعرانہ دانش سے استعفادہ کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

مگر مفکرانہ  شاعری ان کے مصائب میں کمی کا باعث نہیں بنے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ اس وقت ایک بدترین سیاسی اور ذاتی بھنور میں پھنس چکے ہیں۔ ’پھنسنے‘ کے اس عمل میں ان تمام گولیوں کا خاص اثر شامل ہے جو گاہے بگاہے ان کو دی جاتی رہی ہیں۔ ان میں سے چند میٹھی اور چند کڑوی تھیں مگر ان سب کو چھوٹے میاں نے ہنسی خوشی نگلا۔

ایک گولی جو بار بار ان کو دی گئی وہ احتسابی رعایات، سیاسی مرتبے اور مراعات سے متعلق تھی جو ابھی بھی ان کے سرہانے رکھی ہوئی ہے اگرچہ انہوں نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ اس کے اجزائے ترکیبی کا صرف نقصان ہے فائدہ کچھ نہیں۔ میاں نواز شریف کے چند مہینوں کے مزاحمتی بیانیے کے دوران دی جانے والی اس گولی نے میاں شہباز شریف کے مزاج کو اس قدر دھیما کر دیا کہ ان کو مخاصمت، زور آزمائی جیسے الفاظ سن کر ہی غش پڑنے لگتے تھے۔

چوہدری نثار کے ساتھ محلاتی جوڑ توڑ کے کئی کورس کرنے والے شہباز شریف جب اپنے پسندیدہ سلمان شہباز کے مشورے سنتے تو ان کو نون لیگ کی سیاست اور بھی عقل کی پٹڑی سے اتری ہوئی محسوس ہوتی۔ اوپر سے گولیاں دینے والے دوائی کی مقدار بڑھاتے ہوئے اس کے مثبت اثرات پر نئی روشنی ڈالتے۔ ’اگر نواز اور مریم خاموش ہو جائیں تو راستے کھل جائیں گے۔ اگر نواز اور مریم چلے جائیں تو سیاست بحال ہو جائے گی۔‘ ’اگر آُپ سامنے ہوں، آپ کے بھائی نظروں سے اوجھل رہیں، آپ کی بھتیجی اپنی زبان کو دانتوں کی قید میں رکھے تو ن لیگ پھر سے قابل قبول ہو سکتی ہے۔‘

گولی کے ہر پیکٹ پر درج اس طرح کی کئی ہدایات و ممکنہ کارگر اثرات نے شہباز شریف کو بالآخر اس جذباتی کیفیت میں ڈال دیا جس میں انہوں نے چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر پوری شیشی ہی حلق میں انڈیل لی۔ اس کے بعد گولیوں کی ایک اور کھیپ آئی جو ذرا کڑوی مگر شہباز شریف کے تربیت شدہ نظام انظام کے مطابق تھی۔ ’اگر ایکسٹینشن کی ٹینشن دور کرا دیں تو راستے کھل جائیں گے۔‘ ’اگر خارجی اور دفاعی امورمیں قوم کی آواز بنیں تو ذاتی کمپنی کا شیئر پنڈی میں بھی بک سکتاہے۔‘ ’اگر کسی تیسری قوت کے پیچھے کھڑے ہو کر سیاسی ماحول کو بہتر بنائیں اور ایک متبادل سامنے لائیں تو ہمارے پاس بات چیت بڑھانے کی مزید وجوہات آ جائیں گیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پہلے کی طرح یہ نسخہ بھی شروع کر دیا یہ سمجھتے ہوئے کہ وقتی مشکل ہے جب بعد میں سیاسی صحت بحال ہوجائے گی تو کس نے یاد کرنا ہے کہ ایام ضعف کیسے گزرے تھے۔ لیکن سیاسی صحت تھی کہ بگڑتی ہی چلی گئی۔ اصل میں راجہ بازار کی دو نمبر فیکٹریوں میں تیار شدہ دوائیوں کی طرح یہ تمام ادویات محض چبانے اور نگلنے کے لیے تھیں۔ ان کا مقصد ایک جھوٹی تسلی تھا جو اس طرح کے تمام نسخہ جات کو بیچتے وقت ہر چالاک حکیم استعمال کرتا ہے۔

دور ہوتی ہوئی سیاسی منزل اور کسی قسم کی تبدیلی حالات کی غیر موجودگی سے افسردہ ہو کر جھلاہٹ میں جب شہباز شریف نے ترک تعمیل کے اشارے دینے شروع کیے تو اس پر ان کو گولیوں کی نانی بھجوا دی گئی۔ ’عمران حکومت کے دن پورے ہو گئے ہیں۔ ہمیں ایک سمجھ دار متبادل کی تلاش ہے۔‘ ’پنجاب تو بس آپ کا ہے اور اب تو مرکز میں بھی آپ کی اشد ضرورت ہے۔‘ ’آپ شاہ محمود قریشی کو پسند کرتے ہیں یا اسد عمر کو؟‘ ’آپ پنجاب میں چوہدریوں کے ساتھ گزارہ کر لیں تو ہم مدد کے لیے حاضر ہیں۔‘ ’نیب کی فکر نہ کریں اور ویسے بھی یہ وزیر اعظم کا کیا دھرا ہے اب جب وزیر اعظم ہی چلا جائے گا تو پھر اس احتساب کا مستقبل تو ویسے ہی تاریک ہو جائے گا۔‘ ’نہیں اگلے مہینے۔‘ ’بس اگلے ہفتے۔‘ ’نہیں رمضان سے پہلے۔‘ ’یہ رمضان کے بعد۔‘ ’بس کورونا کے بعد۔‘ ’بس ابھی۔‘ ’پتہ نہیں کب مگر ہو گا ضرور۔‘ گولیوں کی بارش تھی اور شہباز شریف سانس لیے بغیر ان کو ہڑپ کر رہے تھے۔

اب خبر آئی ہے کہ شہباز شریف کو گولیاں دیتے ہوئے اصل علاج تو عمران خان کا کیا جا رہا تھا۔ ان کو بتایا جا رہا تھا کہ آپ اپنے آپ کو ناقابل برطرفی اور معزولی نہ سمجھیں اور دھیان سے ان احکامات پر توجہ دیں جو آپ کے گوش گزار کیے جاتے ہیں۔ عمران خان نے حالات کے مطابق مزاج تبدیل کیا اور اب صحت یاب ہو کر اپنی کرسی کو دوبارہ سے سنبھال چکے ہیں۔ وہ اپنے قرنطینہ سے مکمل مطمین ہیں اور حقیقی طاقت سے سماجی فاصلہ اپنانے پر سختی سے کاربند ہیں۔

اور شہباز شریف؟ شہباز شریف کھٹی میٹھی گولیوں کے خالی ڈبوں کے انبار کے بیچ بیٹھے شیخ رشید کی شیخیوں سے بھری اور شوخیوں سے آراستہ پیشں گوئیوں کو سن رہے ہیں کہ عید کے بعد ان کا آستانہ جیل ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ