صحرائے تھر زمانہ قدیم سے ہی قحط سالی کا شکار رہا ہے۔ پانی کی کمی اور غذائی قلت کی وجہ سے سندھ کے اس دور دراز ضلع سے اکثر ہی نوزائیدہ بچوں کی اموات کی دلخراش خبریں سننے کو ملتی ہیں۔
یہاں پانی کی کمی کی اصل وجہ بارشوں کا کم ہونا ہے اور اسی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بہت زیادہ گہرائی میں جا کر ملتی ہے۔ بعض جگہوں پر تو یہ سطح چار سو فٹ سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ پانی تک پہنچنے کے لیے کنویں بنائے جاتے ہیں اور ان کنووں میں سے گدھوں یا اونٹوں کے ذریعے پانی نکالا جاتا ہے۔
ایسے ماحول میں ان سخت حالات سے نمٹنے کے لیے نگرپارکر تھر پارکرکے مقامی لوگوں نے اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پھلدار پودوں کے باغات لگانے شروع کیے ہیں اور ان پودوں کو پانی دینے کے لیے بہت ہی سادہ اور سستا لیکن نہایت کارآمد آبپاشی کا طریقہ اپنایا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نگر پارکر کے رہائشی اللہ رکھیو کھوسو کے مطابق اس قدیم طریقہ آبپاشی میں مٹی کے مٹکے میں ایک چھوٹا سا سوراخ کرکے اس میں سے سوت کی ایک رسی گذاری جاتی ہے۔ پھر اس مٹکے کو پودے کے پاس ایک گڑھا کھود کر اور مٹکے سے نکلی ہوئی رسی کو پودے کی جڑوں کے گرد ایک نالی بنا کر اس میں دبا دیا جاتا ہے اور مٹکے کو پانی سے بھر دیا جاتا ہے۔
مٹکے میں موجود پانی آہستہ آہستہ سوت کی رسی کے ذریعے پودے کی جڑوں تک پہنچتا رہتا ہے۔ اس طرح جھلسا دینے والی شدید گرمی میں پانی بخارات کی صورت میں اڑتا بھی نہیں اور کئی دنوں تک پودے کو تر بھی رکھتا ہے۔
اللہ رکھیوں بتاتے ہیں کہ چونکہ یہاں بارش کم ہوتی ہے اور زرعی آبپاشی کا نظام بھی نہیں تو اس طریقے سے لوگ اپنے پھلدار باغات یا سبزیوں کو اگا سکتے ہیں۔
اس آبپاشی کے طریقے کے ذریعے مصنوعی کھاد کو پانی میں مکس کرکے بھی ان مٹکوں میں ڈالا جاسکتا ہے تاکہ وہ کھاد براہ راست پودے کی جڑوں تک باآسانی پہنچ سکے۔