مساجد پر حملے کے بعد نیوزی لینڈ میں نیم خودکار ہتھیاروں پر پابندی

وزیراعظم جسینڈا آرڈرن کی جانب سے رائفلوں اور ملٹری سٹائل نیم خودکار ہتھیاروں پر فوری طور پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کو عوام کی جانب سے سراہا جارہا ہے۔

کرائسٹ چرچ: گزشتہ ہفتے کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر نماز جمعہ کے دوران حملے کے نتیجے میں 50 افراد کی ہلاکت کے واقعے کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا آرڈرن نے رائفلوں اور ملٹری سٹائل نیم خودکار ہتھیاروں پر فوری طور پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کردیا۔

نیوزی لینڈ کی حکومت کی جانب سے یہ اقدام ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب جمعہ (15 مارچ) کو سفید فاموں کی بالادستی کے نظریے کے حامی ایک آسٹریلوی نوجوان نے کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں فائرنگ کرکے 50 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔

مساجد پر حملہ کرنے والے ملزم برینٹن ٹیرنٹ نے فائرنگ کے مناظر فیس بک ویڈیو کے ذریعے لائیو دکھائے تھے، جس پر پوری دنیا میں حملہ آوروں کی جانب سے ہتھیاروں اور سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے۔

اس واقعے کے بعد وزیراعظم جسینڈا آرڈرن نے ہتھیاروں سے متعلق قوانین پر نظرثانی کا فیصلہ کیا تھا۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران وزیراعظم جسینڈا نے کہا، ’دہشت گرد حملے میں استعمال ہونے والے ہر نیم خودکار ہتھیار پر ملک میں پابندی عائد کی جارہی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ رائفلوں اور ملٹری سٹائل نیم خودکار ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ اُن آلات اور زیادہ گنجائش والے میگزینز پر بھی پابندی عائد کی جارہی ہے، جن کی وجہ سے عام رائفلوں کو نیم خودکار ہتھیار میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے قانون سازی اپریل کے آغاز میں پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی، تاہم عبوری اقدام کے طور پر اس طرح کے ہتھیاروں کی خریداری پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

پابندی پر نیوزی لینڈ کے عوام خوش

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی جانب سے نیم خودکار ہتھیاروں پر پابندی کے فیصلے کو عوام کی جانب سے کافی سراہا گیا۔

54 سالہ کاؤتھر ابولابن، جو النور مسجد پر حملے میں خوش قسمتی سے محفوظ رہے تھے، نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’یہ ایک اچھی چیز ہے، ہمیں نیم خودکار ہتھیار اپنے گھروں میں رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟‘

وزیراعظم جسینڈا آرڈرن کی جانب سے اس پابندی کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں لوگوں کی جانب سے اسے سراہا گیا، وہیں امریکہ میں کچھ لوگ ہتھیار رکھنے کے اپنے آئینی حق کے دفاع کا مطالبہ بھی کرتے نظر آئے۔

تاہم امریکی سینیٹر برنی سینڈرز اور کانگریس کی خاتون رکن الیگزینڈرا اوکیسیو کورٹیز نے بھی جسینڈا آرڈرن کے اس فیصلے کی تائید کی۔

برنی سینڈرز نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا، ’ہتھیاروں کے تشدد کو روکنے کے لیے یہی حقیقی اقدام ہے۔‘

انہوں نے مزید لکھا، ’ہمیں بھی اس سلسلے میں نیوزی لینڈ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے اور امریکہ میں ایسے ہتھیاروں کی خریدو فروخت اور ترسیل پر پابندی عائد کردینی چاہیے۔‘

میتوں کی تدفین دوسرے روز بھی جاری

مساجد پر حملوں میں ہلاک ہونے والے تمام 50 افراد کی شناخت مکمل کرلی گئی ہے، جبکہ میتوں کی تدفین آج دوسرے روز بھی جاری ہے، جہاں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم اور اسکول کے بچے بھی مرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتے نظر آئے۔

حملے میں ہلاک ہونے والے 14 سالہ سید ملنے اور 24 سالہ طارق عمر کو الوداع کہنے ان کے بہت سے ساتھی بھی موجود تھے۔

سید ملنے کے والد جون ملنے نے بتایا کہ ’ان کے بیٹے کو النور مسجد میں فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا، وہ مانچسٹر یونائیٹڈ کے لیے کھیلنا چاہتا تھا۔‘

طارق عمر جونیئر فٹبال ٹیموں کی کوچنگ کیا کرتے تھے، مقامی میڈیا کے مطابق حملے کے روز انہیں ان کی والدہ نے النور مسجد میں ڈراپ کیا تھا، جو پارکنگ کے لیے جگہ تلاش کرنے کی وجہ سے فائرنگ کا نشانہ بننے سے بچ گئیں۔

کرائسٹ چرچ یونائیٹڈ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کولن ولیم سن نے طارق عمر کو ’ایک خوبصورت انسان قرار دیا، جس کا دل بہت بڑا تھا اور جو کوچنگ سے محبت کرتا تھا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا