ایران: ’شوہر نے مجھ سے کہا کہ بیٹی کو خود کو پھانسی دینا سکھاؤ‘

ایک باپ کے ہاتھوں گھر سے بھاگنے والی 13 سالہ بیٹی کے قتل نے پورے ایران کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

تیرہ سالہ رومینہ۔

اپنے والد کے ہاتھوں 13 سالہ رومینہ اشرفی کے 25 مئی کو دردناک قتل کی کہانی نے ایران اور اس سے باہر شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔

لڑکی کی والدہ رانا دشتی نے ’فراز‘ نامی ویب سائٹ کو بتایا کہ ’میں انتقام لینا چاہتی ہوں۔ میں اب اپنے شوہر کا چہرہ بھی نہیں دیکھ سکتی، اب میں اسے نہیں دیکھنا چاہتی۔‘

رومینہ کی والدہ کے مطابق، ’رومینہ اور اس کے والد کے درمیان ایک عرصے سے جھگڑا چل رہا تھا۔ میرے شوہر نے بار بار رومینہ کو جان سے مارنے کی دھمکی یا اسے خودکشی کرنے کی ترغیب دی ہے۔‘

پہلی بار میڈیا سے گفتگو میں والدہ نے بتایا کہ ’اس کے والد نے رومینہ کو چوہے مارنے کی دوا دی تھی اور رومینہ سے کہا تھا کہ وہ خود کو  مار دے تاکہ انہیں اسے مارنے کی ضرورت نہ رہے۔‘

صوبہ گیلان کے ضلع حوق کے ایک گاؤں میں مقامی ذرائع ابلاغ نے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کی خبر دی تھی جو جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی۔

صوبہ گیلان کے سماجی امور کے نائب سربراہ ماجد رسول زادہ نے بعد میں بتایا کہ ’ایک 37 سالہ شخص نے اپنی بیٹی کی گردن پر تیز دھار آلہ پھیر کے اسے مار ڈالا ہے۔‘

پولیس کے مطابق قاتل کو جائے وقوعہ پر گرفتار کر لیا گیا تھا اور اس کی بیٹی کے قتل کی وجہ اس کا گھر سے اپنے سے بڑی عمر کے مرد کے ساتھ فرار ہونا بتائی۔ 

رومینہ کی والدہ نے بتایا ہے کہ ان کے شوہر نے بارہا ان سے رومینہ کو ’خود کو پھانسی دینے‘ کا طریقہ بتانے کو کہا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ رومینہ بہمن کے ساتھ فرار ہوگئی ہے تو والد بہمن کے گھر چلے گئے اور کہا کہ ’میں ان کو مار دوں گا۔‘

پولیس نے 13 سالہ رومینہ کے والد کا نام نہیں بتایا اور صرف اتنا کہا کہ ’یہ مقدمہ درج کر کے اسے عدلیہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔‘

رومینہ کے والد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نیند میں اس کے پاس پہنچے اور پہلے اسے گلا گھونٹ کر مارنے کی کوشش کی جس میں ناکامی پر اس نے ’درانتی‘ کا استعمال کرتے ہوئے اسے مار دیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران میں غیرت کے نام پر اس طرح کی ہلاکتوں کی زیادہ مثالیں نہیں ہیں۔ 1970 کے دہائی کے وسط میں ملک کے جنوب میں اسی طرح کے معاملے میں ایک شخص نے اپنی 10 سالہ بیٹی کو ہلاک کردیا تھا۔ یہ قتل بعد میں ایک دستاویزی فلم کا موضوع بن گیا۔ اس معاملے میں قاتل خود چل کر پولیس کے پاس گیا۔ 

ایرانی قانون کے تحت کسی والد کے خلاف جرم ثابت ہونے پر اسے قید کی سزا ہی سنائی جاسکتی ہے۔

بعض ریاستی عہدیداروں نے اس تکلیف دہ ہلاکت کی خبر کے جواب میں بیانات دیے ہیں۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے کابینہ کے اجلاس میں اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور ’تشدد پر پابندیوں‘ سے نمٹنے کے لیے ایک مہم کا حکم دیا۔ ایران کے نائب وزیر انصاف نے بھی ملزموں کو کڑی سزا‘ دینے کا وعدہ کیا ہے۔

بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن کے نیشنل اتھارٹی کے سیکرٹری محمود عباسی نے بھی رومینہ کے قتل پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ استغاثہ کے لیے ابھی آپشنز ختم نہیں ہوئیں یعنی ’سڑک خاتم‘ نہیں ہوئی ہے۔

’بلاشبہ، ہمارا فرض یہ ہے کہ اس کیس کی سماعت کی جائے اور اس جرم کے مرتکب شخص کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین