چینی چڑھائی پر کشمیری قصیدے

جب اس پورے خطے کو متحد، منظم اور مستحکم کرنے کی بجائےاتنا کمزور اور تلخ بنا دیا گیا ہو تو یہاں کے عوام دشمن کی مار پر خوش نہیں ہوں گے تو اور کیا کریں گے۔

بھارتی فوجی چین کے ساتھ سرحد پر گشت کرتے ہوئے (اے ایف پی)

نعیمہ احمد مہجور کا کالم ان کی آواز میں سننے کے لیے آپ پلئیر کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔

 

جب دشمن کے دشمن کو دوست کہلانے کا وقت آتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ آپ کے پیروں تلے کی زمین کھسکنے والی ہے۔ بعض مبصر آج کل جموں و کشمیر میں کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کر رہے ہیں جہاں لداخ میں وادی گلوان کا علاقہ چین اور بھارت کی افواج کے درمیان معرکہ آرائی کا بڑا محاذ بن گیا ہے۔ ایسے وقت میں بیشتر مقامی لوگ چین کو دشمن کی بجائے دوست تصور کرنے لگے ہیں۔

’اگر یہ معرکہ آرائی چند سال پہلے دیکھی جا سکتی تھی تو شاید چینی چڑھائی کو اتنی حمایت حاصل نہ ہوئی ہوتی جو سوشل نیٹ ورک کے ذریعے اسے جموں و کشمیر کے بیشتر عوام سے آج کل مل رہی ہے بشمول بیشتر لداخیوں کی جنہوں نے ہمیشہ کشمیری اکثریت کے برعکس اپنے مختلف نظریات کی آبیاری کی ہے۔‘

کشمیر یونیورسٹی کے سیاسیات کے ایک استاد نے حال ہی میں ایک کانفرنس میں اس کا برملا اظہار کیا۔ پانچ  اگست 2019 کے بھارتی حکومت کے فیصلے نے جموں و کشمیر کی تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ آبادی کی سوچ  نہ صرف یکسر تبدیل کر دی ہے بلکہ ایک متحد ریاست کو حصوں میں بانٹ کر اسے دشمن  کی خوراک کے مانند ٹھہرایا ہے۔

سن نوے کے برعکس جب کشمیر میں عسکری تحریک شروع ہوئی تھی آج تقریبا 99 فیصد آبادی بھارتی حکومت کے خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف ہے جن میں غیرمسلم شہری بھی شامل ہیں۔

یہ درست ہے کہ جنگیں لڑنا فوج کی ذمہ داری ہوتی ہیں لیکن جنگوں کی کامیابی کا انحصار ہمیشہ مقامی عوام پر ہوتا ہے۔ اگر آپ نے عوام کا اعتبار اور اعتماد ہی کھو دیا ہے اور ان کی شہ رگ پر بندوق کی نوک رکھی ہوئی ہے تو عقل کہتی ہے کہ محاذ آرائی کی جانب آپ کی پیش قدمی آپ کی ممکنہ شکست کا پیش خیمہ ہے۔

ریاست جموں و کشمیر کو حصوں میں بانٹ کر یونین ٹریٹری بنانا آسان ہے، عوام کو قیدی بنانا اس سے بھی سہل ہے، نوجوانوں کو زدو کوب کرنا اور بھی آسان ہے لیکن جب عوامی طبقے آپ کے دشمن کو گلے لگا کر بہ بانگ دہل یہ کہہ دیں کہ ’تو اگر میرا نہیں تو میں بھی تیرا نہیں‘ تو آپ کو چینی افواج سے لڑنے کی ہمت بھی نہیں کرنی چاہیے۔

پاکستان کی بات ہی نہیں اس لیے کہ یہ نہتے اور مظلوم عوام سے لڑنا نہیں ہے بلکہ یہ کہنا صیح ہوگا کہ آپ جن گلیوں سےگزر کر چین سے نبرد آزما ہونے جا رہے ہیں ان گلیوں میں رہنے والے آپ کے دشمن کی کامیابی کی دعائیں مانگ رہے ہیں حالانکہ انہیں خوب علم ہے کہ دشمن ملک سے بھی کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

کشمیریوں کو بخوبی علم ہے کہ چین میں اویغوروں کی حالت ان سے بھی بدتر ہے اور ان کی شناخت اور کردار کو ختم کرنے کے ایک بڑے خفیہ منصوبے پر کئی برسوں سے عمل درآمد جاری ہے۔ پھر پاکستان کی سرزمین کو چیڑ پھاڑ کر سلک روڈ کے ذریعے وہ وسط ایشیا کا صدیوں پرانا روڈ میپ پھر سے بحال کرنے میں مصروف ہے لیکن چین سے ہمدردی کے پیچھے ان مجروح جذبات کی ترجمانی ہوتی ہے جو پانچ اگست کے جارحانہ فیصلے کے بدولت ہر شہری کے دل میں آگ کی طرح بھڑک رہے ہیں۔

دنیا کی تاریخ  پارلیمان یا سیاسی دفتروں میں نہیں لکھی جاتی ہے بلکہ تاریخ ان گلی کوچوں میں رقم ہوتی ہے جہاں نہتے اور بےقصور عوام کا خون بہتا ہے۔ جہاں مائیں اپنے لاڈلوں کی جلی ہوئی لاشوں کو دفن کرتی ہیں، جہاں عورتیں مردانہ لباس پہن کر عورت ہونے کا ثبوت مٹا دیتی ہیں اور جہاں بچے خوف و دہشت کے مارے رات کو سوتے نہیں ہیں۔

معروف مورخ آرنلڈ ٹوین بی لکھتے ہیں کہ ’فوجی تسلط، نسل کشی اور بربریت کی داستانیں مورخ نہیں بلکہ عوام لکھتے ہیں اور دوست نہیں دشمنوں کو جنم دیتے ہیں‘ جس کی شواہد جموں و کشمیر کی وہ بےشمار قبریں ہیں جن پر اب نمبر بھی نہیں لکھے جاتے۔

وادی گلوان میں جاری معرکہ آرائی نے اس پرانی دردناک داستان کو پھر تازہ کر دیا ہے جب سکھ اور ڈوگرہ دور میں مسلمانوں کو اپنے گھروں سے بےدخل کر کے سزا کے طور پر دور دراز علاقوں میں مرنے کے لیے بھیج دیا جاتا تھا۔ غلام رسول گلوان بھی ایک ایسے ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس نے لداخ میں موسم کی سختیوں اور مشکلات کے باوجود اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے زندہ رہنا سیکھا اور بعد میں اس علاقے میں آنے والوں کی رہبری کرتا رہا۔

یورپی مورخوں، مسافروں اور کوہ پیماؤں کی رہنمائی کر کے گلوان نے علاقے کی تاریخ بدل ڈالی۔ جن خاندانوں پر گھوڑ چوری کا الزام دے کر گلوان کا لیبل چسپاں ہوا تھا وہ اس علاقے کے بہترین گھوڑ سوار مانے جانے لگے۔ مورخ کہتے ہیں کہ ان کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر ہی برطانوی افسر اور مورخ فرانسس ینگ ہسبنڈ نے غلام رسول گلوان کو اپنی کہانی لکھنے کی تحریک دی تھی۔ فرانسس نے کشمیر میں اپنی سکونت کے دوران ’کشمیر‘ نام سے ایک کتاب لکھی حالانکہ برطانوی حکومت نے انہیں وسط ایشیا میں پامیر کی معلومات دینے کے لیے تعینات کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لداخ سے کئی سو کلومیٹر دور غیرآباد پہاڑی علاقہ گلوان خاندان کے نام پر وادی گلوان سے متعارف ہوا جس کے بیچوں بیچ دریائے گلوان بہتا ہے۔ یہ دریا اکسائی چن سے شروع ہو کر لداخ تک پہنچ جاتا ہے اور یہی دریا چین اور بھارت کے درمیان سرحد کی مانند ہے جسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے طور پر جانا جاتا ہے۔ سن باسٹھ کی جنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان یہ ایک بڑا قضیہ بھی رہا ہے۔

غلام رسول گلوان نے اپنی سوانح حیات ’سرونٹس آف صاحبس‘ میں اپنے خاندان کی نقل مکانی، شجرہ نسب اور غیرمسلم حکمرانوں کی مسلم کش پالیسیوں کا احاطہ کر کے اپنے دور کی ہیبت ناک تصویر نمایاں کی ہے۔ یہ حالت دو صدیوں پر محیط لمبی جدوجہد کے باوجود اب تک نہیں بدلی ہے۔ اس وقت بھی اس خطے کے مسلمانوں کو ہراساں وپریشان یا دیس بدری کی سزائیں بھگتنا پڑ رہی ہیں جس کی حالیہ شکل وہ نیا ڈومیسائل قانون ہے جو چند ماہ پہلے کشمیر کی مسلم اکثریت کو ختم کرنے کے لیے بھارتی حکومت نے  لاگو کر دیا۔

گلوان وادی کا مقابلہ سائبیریا سے کیا جانا مناسب ہوگا جہاں سابق سویت یونین وسط ایشیائی مسلمانوں اور مخالفین کو سزا بھگتنے کے لیے بھیجا کرتا تھا۔ آج جموں و کشمیر کے پشتینی باشندوں کو وطن سے بےدخل کرنے کا منصوبہ متعارف کرایا گیا ہے اور وہ بھی ایسے وقت جب خود کو انسانی حقوق کے علم بردار کہلانے والی بعض جمہورتیں خاموشی سے بھارت کی حمایت کر رہی ہیں۔

جن لداخیوں کو خوش کرنے کے لیے اس علاقے کو یونین ٹیریٹری بنایا گیا ان میں بیشتر اب سر پیٹنے لگے ہیں جب انہیں ڈومیسائل لا کے پیچھے ہندتوا کے عزائم کا انکشاف ہوا۔ جموں والوں  نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو گلے لگا کر ’وکاس‘ یا ترقی کا جو خواب دیکھا تھا وہ اس وقت اپنے وجود کو بچانے کی فکر میں ہے جہاں پنجاب اور ہماچل پردیش نے پہلے ہی اپنے قدم جمائے ہیں۔

جب اس پورے خطے کو متحد، منظم اور مستحکم کرنے کی بجائےاتنا کمزور اور تلخ بنا دیا گیا ہو تو یہاں کے عوام  دشمن کی مار پر خوش نہیں ہوں گے تو اور کیا کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر لوگ سوشل نیٹ ورک کے ذریعے  بھارتی پالیسیوں کے پس منظر میں اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کرنے لگے ہیں۔

لداخ کے ایک سینیئر صحافی نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا: ’جب آپ نے اپنی بےہودہ حرکتوں، فوجی آپریشنز اور ہندوتوا سے عوام کو اتنا دل برداشتہ بنا دیا ہے کہ انہیں دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک موقع نصیب ہوا تو وہ آپ کے دشمن، چین کی حمایت میں قصیدے  پڑھنے لگے ہیں۔‘

کشمیری میں ایک کہاوت ہے ’حشی ہیند دوہ ژور تہ نوشی ہیند تہ دوہ ژور‘ یعنی وقت ایک جیسا نہیں رہتا جہاں چار دن ساس کے ہوتے ہیں وہیں بہو کے بھی چار دن ضرور آتے ہیں۔

شاید گلوان وادی پر چینی چڑھائی اس خطے میں بہو کے چار دن کے مانند ثابت ہوں کسے پتہ۔۔۔۔۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ