سی پیک کے خلاف امریکہ - بھارت گٹھ جوڑ

افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی بعض سیاسی جماعتیں اس امریکی کھیل کا نادانستہ طور پر حصہ بن گئیں۔

سی پیک منصوبے کے تحت چین نے 2015 اور 2030 کے درمیان پاکستان میں مختلف شعبوں میں 62 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنی ہے (اے ایف پی)

امریکہ ایک حکمت عملی کے تحت چین کے پاکستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات اور سی پیک منصوبے کو چند سالوں سے پیچھے دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ان کوششوں کی بنیادی وجہ امریکہ کے عالمی اور علاقائی سلامتی کے مسائل ہیں۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ واحد سپر پاور کے طور پر سامنے آیا۔ اس وقت امریکی پالیسی سازوں نے فیصلہ کیا کہ اب کبھی بھی سوویت یونین جیسی حریف طاقت کو ابھرنےکا موقع نہیں دیا جائے گا۔

چین نے 1979 کے بعد حیرت انگیز معاشی ترقی کی، جس میں اس کی معیشت میں 1978 اور 1998 کے درمیان پانچ گنا اضافہ ہوا۔ امریکہ اس ترقی کو اپنی عالمی برتری کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے امریکہ نے چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور دفاعی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی بنانی شروع کی۔

اپنی سرد جنگ کی پالیسی کی طرح امریکہ نے جاپان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا کے ساتھ دفاعی اتحادوں کے لیے کام شروع کیا۔ اس کے ساتھ امریکہ نے بھارت کو بھی اس حکمت عملی میں شراکت دار بنانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ بھارت کو چین کے علاقے میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے علاقے میں اپنا استبدانہ منصوبہ خطرے میں نظر آیا، اس لیے امریکہ کے ساتھ ہوگیا۔

پچھلی چار امریکی انتظامیہ، جن میں دونوں رپبلکن اور ڈیموکریٹ شامل ہیں، بھارت کے ساتھ مل کر اس امید پر اس کثیر الجہتی منصوبے پر کام کرتے رہے کہ بھارت چین کے بحر ہند اور جنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے آگے ایک فصیل بن کر کھڑا ہوگا۔ اس لیے امریکی خیال میں اگر پاکستان بھارت کی برتری کو قبول کر لے تو یہ اس امریکی حکمت عملی کو، جس میں بھارت کو ایک بڑی ایشیائی طاقت بنانا ہے، آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔

صدر ٹرمپ کے بھارت کے حالیہ دورے نے واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان اس طرح کے گہرے تعاون کو مزید مضبوط کیا ہے۔ یہ امریکی علاقائی پالیسی اور پاکستان پر معاشی، سیاسی اور فوجی دباؤ اسلام آباد کو بیجنگ کے مزید قریب لے آیا ہے۔ سی پیک منصوبہ اسی بڑھتے ہوئے معاشی، سیاسی اور سلامتی کے مسائل پر ہم آہنگی کا نتیجہ ہے۔

سی پیک منصوبے کے تحت چین نے 2015 اور 2030 کے درمیان پاکستان میں مختلف شعبوں میں 62 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنی ہے، جس میں پاکستان کے فرسودہ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے علاوہ اس منصوبے کے تحت سڑکوں کے جال بچھانے، ریلوے میں انقلابی تبدیلی لانا، شمالی اور جنوبی معاشی کوریڈور قائم کرنا اور بیجنگ کو گوادر کی بندرگاہ سے ملانا شامل ہے۔

اس کے علاوہ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں توانائی کی کمی کو پورا کرنا بھی شامل ہے اور مختلف صعنتی زون بھی قائم کرنا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 2015 سے 2018 تک تقریباً 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی اور 2018 سے 2020 کے درمیان پانچ ارب ڈالرز کی اضافی سرمایہ کاری بھی کی گئی۔

اس بڑی سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان کی مجموعی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا اور ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعے فراہم ہوئے۔ یہ تعاون اور بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات عالمی برادری کے لیے ایک واضح پیغام تھا۔

اس بڑھتے ہوئے تعاون کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ سی پیک کے ذریعے چین کو خلیجی اور مشرقی افریقہ کے ممالک تک پہنچنے کے لیے انتہائی کم مسافت والا راستہ مل گیا۔ پاکستان کے لیے گوادر خطے کی ایک بڑی تجارتی بندرگاہ بن رہی تھی اور پاکستان شمال اور جنوب کے لیے تجارت اور توانائی کا ایک اہم کوریڈور بننے جا رہا تھا۔

یہ سب امریکہ اور بھارت کے مفادات کے خلاف تھا اور اپنی ناپسندیدگی ان کے ترجمانوں نے کافی مواقعوں پر ظاہر کی۔ ان کے خیال میں سی پیک ان کی ایشیا اور چین کے بارے میں منصوبوں میں ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ اس لیے دونوں ملکوں نے مل کر سی پیک کو ناکام بنانے کے مختلف منصوبوں پر کام شروع کر دیا۔

ان کا ابتدائی حملہ سی پیک کے بارے میں غلط معلومات کی مہم تھی جس کے تحت پاکستان کے لیے اس منصوبے کی افادیت پر سوالات اٹھائے گئے۔ اس منصوبے کا دوسرا اہم جزو پاکستانی حکومت کے لیے سیاسی مشکلات پیدا کر کے اس کے سی پیک سے متعلق عزم کو متزلزل کرنا تھا۔

اس سلسلے میں انہوں نے چالاکی سے سول ملٹری تعلقات کی کمزوری اور پاکستان کے اندرونی سیاسی خلفشار اور تقسیم کو استعمال کیا۔ 2014 میں حکومت کے خلاف چھ ماہ کا لمبا دھرنا جس کی وجہ سے چینی صدر شی چن پنگ کو اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا، اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں اس امریکی کھیل کا نادانستہ طور پر حصہ بن گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر شی نے اپنا دورہ اپریل 2015 میں کیا اور اس کے دوران تاریخی سی پیک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے ردعمل کے طور پر غالباً امریکہ نے اس وقت کی سی پیک معاہدے پر دستخط کرنے والی پاکستانی حکومت کو گرانے کے لیے ایک خفیہ منصوبے کا آغاز کیا۔

امریکہ کے لیے اس طرح کی منصوبہ بندیاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں وہ بہت ساری حکومتوں کو کمزور یا گرانے کا کام کرتا رہا ہے۔ 1904 اور 1934 کے درمیان امریکہ نے لاطینی امریکہ میں 21 دفعہ فوجی مداخلت کی۔

کیوبا انقلاب کی مخالفت اور فیڈل کاسٹرو کے خلاف مختلف فوجی اقدامات، امریکہ کی اس طرح کی مداخلت کی ایک بڑی مثال ہیں۔ چلی میں ایک جمہوری حکومت کا خفیہ کارروائیوں کے ذریعے تختہ الٹنا ساری دنیا پر پوری طرح عیاں ہے۔ ہمارے اپنے علاقے میں سی آئی اے کی مدد سے ایرانی وزیر اعظم محمد مصدق کی 1953 میں حکومت کا خاتمہ کس سے چھپا ہوا ہے۔

مشہور امریکی مصنف گراہم ایلسن اپنی حالیہ کتاب Destined to War میں لکھتے ہیں کہ امریکہ کے لیے حکومتوں کو کمزور کرنے یا گرانے کے لیے ایک اور طریقہ بھی ہے جس میں امریکہ اپنی سائبر صلاحیتوں کے ذریعے مختلف معلومات تیسرے ذرائع سے چرا کر لیک کرتا ہے۔

یہ معلومات عالمی رہنماؤں کی موجودہ یا ماضی کی غلطیوں کے راز فاش کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ مثلا ان میں یہ ذکر بھی ہوتا ہے کہ یہ سیاسی رہنما کیسے دولت مند ہوئے (صفحہ 224)۔ یہ بات حیرت انگیز طور پر پاناما پیپر کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے جس میں نواز شریف کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے بارے میں نامعلوم ذرائع سے معلومات کو لیک کیا گیا جو کہ 2017 میں ان کو حکومت سے نکالنے پر منتج ہوا۔ شاید یہی سی پیک معاہدہ کرنے کی سزا تھی۔

اس سے یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی موجودہ معاشی مشکلات کسی امریکی منصوبے کا حصہ تو نہیں ہیں جس سے سی پیک منصوبے کو بھی سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس سلسلے میں موجود حکومت کے اہم عہدے داروں کے 2018 میں حکومت سنبھالنے کے وقت سی پیک کے بارے میں تنقیدی بیانات بھی تشویش کا باعث تھے۔

وزیر اعظم عمران خان کے چین کے ماضی کے دورے اور صدر عارف علوی کا حالیہ دورہ سی پیک کے سلسلے میں خدشات کو ختم کرنے میں مددگار ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی حکومت کو اپنی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی واضح کرنے کی ضرورت ہے اور غیر مبہم الفاظ میں پاکستان کی سی پیک کے ساتھ ثابت قدمی اور چین کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کرنے کا اظہار کرنا چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو یہ اعلان کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ خود انحصاری کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے سادگی کو اپنائیں گے اور ملک میں اندرونی سیاسی استحکام کو مضبوط کرنے کے علاوہ معاشی ترقی کو تیز کرتے ہوئے ملک کے مفاد میں اندرونی اور بیرونی پالیسیاں بنائیں گے۔


نوٹ: مصنف پاکستان کے ساتق سفیر اور Pakistan and a World in Disorder – A Grand Strategy for the Twenty-First Century کے مصنف ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر