وبا کے دنوں میں ہلکا سا تالا کھلا اور آصف فرخی اڑ گئے

بعض نظموں کی اٹھان تو خوب ہوتی ہے مگر اختتام ٹھیک سے نہیں بن پاتا۔ آصف فرخی ایسی ہی ایک نظم ہیں جو قاری کو جکڑا ہوا چھوڑ گئے۔

پانچ منٹ کی ملاقات کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ آصف فرخی عالم بڑا ہے یا انسان(تصویر بشکریہ طارق سمیع)

اسلام آباد میں اتنی تیزی سے موسم نہیں بدلتے جس تیزی سے میرے گھر بدلتے ہیں۔ گھر بدلتے وقت جو چیز اعصاب کا سب سے زیادہ امتحان لیتی ہے وہ کتابیں ہیں۔

پچھلے 15 دنوں سے میں نئے مکان کے اُس کمرے کا رخ ہی نہیں کررہا تھا جہاں پڑے کتابوں کے ڈبے میری کاہلی کو چیلنج کر رہے ہوتے ہیں۔ سستی کی سطح جتنی بھی بلند ہو ایک دن آستین کھینچنے ہی ہوتے ہیں، سو کھینچ لیے۔ کتابوں کا پہلا کارٹن کھولا تو وہ اجمل کمال کے ادبی رسالے ’آج‘ کا ذخیرہ نکلا۔

ایک ترتیب میں رکھنے کے لیے ’آج‘ کے شمارے نکال رہا تھا کہ اسی ڈھیر سے آصف فرخی کا رسالہ ’دنیا زاد‘ نکل آیا۔ یہ کتابی سلسلے کا 25واں شمارہ ہے جو ’زخموں سے نڈھال‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ ادب کی دنیا میں ’آج‘ اور ’دنیا زاد‘ کے امتزاج پر میں کوئی رائے دوں تو یہ چھوٹا منہ اور بڑی بات ہو جائے گی۔ استاد محترم عثمان قاضی سے سن لیجیے:

’ہمارے ہاں ہماری غیر ملکی ادب سے روشناسی اکثر انگریزی ادب تک محدود رہتی ہے۔ یہ سہرا آصف فرخی اور محترم اجمل کمال کے سر جاتا ہے کہ انہوں نے دیگر زبانوں ہسپانوی، اطالوی، عربی، ہندی، تمل، پنجابی، پرتگیزی ادب کو براہ راست یا انگریزی ترجمے کی راہ سے ہم تک اردو میں پہنچانے کی ابتدا کی۔ ان اصحاب کی کاوشیں نہ ہوتیں تو کم از کم اس خادم جیسے لوگ تمام عمر ان زبانوں کے ادب سے واقف نہ ہو سکتے۔‘

دنیا زاد کی فہرست پر نظر پڑی تو مجھے یاد آیا کہ فرخی صاحب نے حبیب یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے تقسیمِ ہند کے حوالے سے ادبی مواد کی ایک فہرست مرتب کی تھی۔ یہ فہرست میں نے ایک آدھ بار ان سے مانگی مگر ہر بار وہ خلافِ توقع بھول گئے۔ لاہور ادبی میلے میں ملاقات ہوئی تو فہرست کی طرف میرا دھیان نہیں گیا۔ خود سے بولے، یار پتہ نہیں کیوں بھول جاتا ہوں میں، کراچی چلا جاؤں تو بس ایک بار یاد دلا دیجیے گا فہرست حاضر ہو جائے گی۔

ادبی میلے کے بعد کئی بار سوچا کہ یاد دلاؤں مگر زمانے گزر گئے بات سوچنے سے آگے نہ بڑھ سکی۔ دنیا زاد کی فہرست پڑھتے پڑھتے دھیان تقسیمِ ہند کے ادبی مواد کی طرف چلا گیا۔ سوچا اب تو یاد دلا دینا چاہیے۔ کال کروں؟ نہیں، میسج بھیجنا ٹھیک رہے گا۔ میسج کے لیے میں نے سیل فون کھولا تو پہلے سے ہی ان کا ایک پیغام موجود تھا جو مجھے شرمندہ کر رہا تھا۔ لکھا تھا:

’وبا کے حوالے سے دنیا زاد کا خصوصی شمارہ ترتیب دے رہا ہوں، انڈپینڈنٹ اردو میں شائع ہونے والا تمہارا مضمون ’وبا کے پانیوں میں خوابوں کے جزیرے‘ بھی اس میں شامل کر رہا ہوں۔ باقی مضامین بھی بھجوا دو۔‘ (یہ تحریر یہاں پڑھی جا سکتی ہے)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے آگے کی بات پر یقین نہیں کرنا چاہیے، مگر آپ سن لیجیے۔ سیل فون میرے ہاتھ میں ہی تھا کہ سماجی ذرائع ابلاغ پر دوستوں کے ایک گروپ میں پیغام آیا جو میرے سیل فون کے ماتھے پر ابھر کے بجھ گیا۔ حسن معراج نے آصف فرخی کا نام لکھا ہوا تھا اور ساتھ سوالیہ نشان تھا۔ کچھ لمحوں کے فرق کے ساتھ عثمان قاضی کا پیغام ابھرا، میں نے ’اف‘ لکھا ہوا دیکھا اور میسج واپس پٹاری میں چلا گیا۔

دل نے کہا کہ یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے مگر دماغ نے تسلی دی کہ یقیناً فرخی صاحب نے کمال کی کوئی تحریر لکھ دی ہے، دوست اس پر تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہوں گے۔ دل اس تسلی سے اس لیے مطمئن نہیں ہو سکا کہ فرخی صاحب کی آنکھوں کے گرد بڑھتے ہوئے سیاہ حاشیے وہ کئی دن سے پڑھ رہا تھا۔ ایک پل کو میں نے فرض کیا کہ آصف فرخی اگر ہمارے بیچ نہ رہے تو؟ یہ سوچ کر ہی دماغ میں سیٹیاں بجنے لگیں اور دم گھٹنے لگا۔ گھر کی گھنٹی بجی تو تنے ہوئے اعصاب چھوٹ گئے مگر وہ جو ایک بے کلی سی ہوتی ہے وہ برقرار رہی۔

گاؤں سے آئے ہوئے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے جتنا مسکرایا جا سکتا تھا میں مسکرایا، مگر مہمان جس انداز سے مجھے پڑھ رہا تھا اس سے اندازہ ہوا کہ میرے دل کی عبارت شاید میرے ماتھے پہ ابھر آئی ہے۔ دماغ کی حجتیں دل کی بے چینی کے خلاف زیادہ دیر مزاحمت نہیں کر پائیں۔ مہمان خانے تک جاتے جاتے میں نے فیس بک کھول ہی لی کہ بات جو بھی ہے اب جان لینی چاہیے۔ پردہ کھلتے ہی حاشر ابنِ ارشاد کی پوسٹ سامنے آئی اور طبعیت میں جلتا ہوا امید کا آخری چراغ بھی بھک سے بجھ گیا۔

پہلے پہل جب مجھے دنیا زاد سے تعارف ہوا تو یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ آصف فرخی کا پرچہ ہے۔ مجھے آصف اسلم نامی ایک شخص کے بارے میں جان کاری تھی، مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ مرحوم اسلم فرخی کے فرزند آصف فرخی ہیں۔ میں تو اُس آصف اسلم کے بارے میں جانتا تھا جو قوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے میں ملازم تھے۔ اس شخص سے تو میری دو تین ملاقاتیں اس زمانے میں ہو چکی تھیں، جب میں خود ایک بین الاقوامی ادارے کے شعبہ ابلاغیات سے وابستہ ہوا۔

ان ملاقاتوں میں بتانا تو دور کی بات، کبھی اندازہ بھی نہیں ہونے دیا کہ وہ در اصل آصف فرخی ہیں۔ میرے فرانسیسی رفیقِ کار ژولیاں نے اس راز سے پردہ اٹھایا تو میں نے سر پکڑ لیا۔ جیسے جیسے میں ان کے بارے میں جانتا گیا دل پر ان کی دھاک بیٹھتی چلی گئی۔ اس کے بعد پھر دفتری امور میں بھی ان کا سامنا کرنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی۔

کہہ لینے دیجیے کہ قدرت نے اعتماد کا بہت مناسب حصہ ہمیں عطا کیا ہوا ہے، مگر کسی ٹھوس شخصیت کی علمی قدر و منزلت دل میں دھونی رما کے بیٹھ جائے تو اس کا سامنا کرتے ہوئے کان کے نرموں سے ایک طرح کی تپش اٹھتی ہے۔

کچھ سال پہلے کراچی میں صدر مارکیٹ کی بھیڑ میں گزرتے ہوئے دیکھا کہ فرخی صاحب ہاتھ میں کپڑے کا ایک تھیلا اٹھائے چلے آ رہے ہیں۔ سوچ میں پڑگیا کہ سلام کروں یا نہ کروں۔ محبت کا اظہار کروں کہ نہ کروں۔ جی ہی جی میں کنی کترا کے گزرجانے کا فیصلہ کر لیا۔ جونہی میرے اور ان کے بیچ فاصلہ سمٹا سلام کے لیے بے ساختہ میرے دونوں ہاتھ بڑھ گئے۔ وہ رکے، سلام کیا، حال پوچھا جواباً میں نے بھی احوال پوچھا اور چپ ہو گیا۔ ہاتھ تو میں نے ملا لیا ہے مگر اب بولنا کیا ہے؟ سوال گم جواب گم والا معاملہ ہو گیا۔

بس منہ سے اتنا نکلا، ’آپ کو دیکھا تو سوچا کہ ہاتھ ملا لوں۔‘ میری اس حماقت پر انہیں سمجھ بھی نہیں آئی کہ اب کیا رد عمل دیا جائے۔ ایک بار پھر احوال پوچھ لیا، مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا، ہاتھ ملایا اور اپنے اپنے راستے پہ ہو لیے۔ میں اپنی ہتھیلیوں پرٹھنڈے پسینے محسوس کرسکتا تھا۔ میں خود کو کوس رہا تھا کہ جب سوچ ہی لیا تھا کہ خاموشی سے گزرنا ہے تو پھر ہاتھ بڑھا کر کسی شریف انسان کا راستہ کاٹنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ خود بھی شرمسار ہوئے دوسرے کو بھی بے وجہ شرمسار کیا۔

اپنے آپ سے یہ توتکار جاری تھی کہ پیچھے سے آواز آئی، ’سنیے گا۔‘ پلٹا تو فرخی صاحب کھڑے تھے۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ ہڑ بڑاتے ہوئے میں نے کہا، ’حکم سائیں؟‘

فرخی صاحب بولے، ’آپ کا تعارف کیا ہے؟‘

’سر میں فرنود عالم ہوں، بس قاری ہوں آپ کا، یوں سمجھ لیں کہ شاگرد ہیں آپ کے۔‘

دوبارہ جوشیلے انداز میں ہاتھ ملاتے ہوئے بولے، ’مجھے بھی شک پڑا کہ یہ بندہ فرنود تو نہیں ہے؟ میں تو خود آپ کا قاری ہوں بھائی۔‘ اس کے علاوہ جو کہا وہ رہنے دیتا ہوں، مگر پانچ منٹ کی اس ملاقات کے بعد فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ یہ شخص عالم بڑا ہے یا انسان بڑا ہے۔

ایک بار انہوں نے کراچی کے حالات کے حوالے سے ایک فکاہیہ کالم باندھا۔ اشاعت سے پہلے ہی مدیر نے مجھے فون کر کے کہا، ’فرخی صاحب نے اپنے تازہ کالم میں تمہارے ایک پرانے مضمون کا حوالہ دیا ہے، تو کہہ رہے تھے کہ فرنود کو پیشگی پڑھوا دیجیے گا کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے۔‘

میں نے کہا، ’لاحول ہے مجھ پر اگر میں ان کا کالم پیشگی پڑھ کر کوئی رائے دوں، ناراضی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، فرخی صاحب جھاڑ بھی پلائیں گے تو نصیب ہی جاگیں گے۔‘ یہ بات میں نے کہہ تو دی مگر مستقل اس خلجان میں پڑا گیا کہ خدایا انہوں نے ایسا کیا لکھ دیا ہے کہ پیشگی معذرت کر رہے ہیں۔

شام کو انہوں نے کالم اپنی ٹائم لائن پر ڈالا تو مجھے ٹیگ کرتے ہوئے لکھا، ’بھائی معذرت کے ساتھ۔ یہ دیکھ کر حالتِ دل کہ تھی خراب اور خراب ہو گئی۔‘

دھڑکتے دل کے ساتھ میں نے کالم کھولا تو مجھ غریب کا حوالہ ضرور موجود تھا مگر رات تک میں ہر پہلو سے پورے فسانے میں وہ بات ڈھونڈتا رہا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ کسی کو ناگوار بھی گزر سکتی ہے۔ ہوا تو کچھ نہیں، بس میرا ایک نقصان ہو گیا۔ آنکھ میں ایسی حیا اور طبعیت میں ایسا حجاب اتر آیا کہ فاصلے اور بھی بڑھ گئے۔

یہی وجہ تھی کہ جب کبھی مجھے ان سے کوئی کام پڑتا تو میں حسنین جمال سے کہتا، ’یار فرخی صاحب سے یہ بات کہہ دے۔‘ حسنین میٹھی سی جھنجھلاہٹ کے ساتھ کبھی کہہ دیتا کہ ’بھئی تو خود کیوں بات نہیں کر لیتا، تجھے مسئلہ کیا ہے۔‘ یہ مسئلہ میں حسنین کو ضرور سمجھا دیتا مگر مجھے کبھی نہیں لگا کہ یہ سمجھائی جا سکنے والی کوئی بات ہے۔  

مولانا آزاد کانگریس کے دوسرے رہنماؤں کے ساتھ قلعہ احمد نگر میں قید تھے۔ یہ رہنما روزانہ شام کی چائے پر جیل کے برآمدے میں مل بیٹھتے تھے۔ سنگت لگاتے تھے، چسکیاں لیتے تھے، سگرٹ پھونکتے تھے اور گپیں اڑاتے تھے۔ کچھ دن کی تاخیر سے پہنچنے والے اخبار کے ذریعے خبر ملی کہ مولانا کی بیمار اہلیہ شفا خانے میں موت سے لڑتے لڑتے دم توڑ گئی ہیں۔ یہ مولانا کے آنگن میں سانس لیتا ہوا اکلوتا پھول تھا جو انتظار کے دنوں میں مرجھا گیا تھا۔

اس خبر نے قلعہ احمد نگر کے ماحول میں یک لخت اداسی بھر دی۔ قیدیوں کا خیال تھا کہ آج شام ہمیں غمرازی کے لیے مولانا کے زندان میں جانا پڑے گا۔ شام ہوئی تو وہ ششدر رہ گئے کہ مولانا معمول کے مطابق اپنے زندان سے نکل کر برآمدے میں چلے آ رہے ہیں۔ دوست جمع ہوئے تو بات کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں کل شام چھوڑا تھا۔

چائے کے گھونٹ اسی چاؤ کے ساتھ اور سگریٹ کے کش اسی رچاؤ کے ساتھ بھرے۔ ان کی بدن بولی میں ماتم کے رنگ تھے اور نہ لہجے میں کوئی شکایت تھی۔ اگلی صبح جواہر لعل نہرو یہ دیکھ کر حیران تھے کہ مولانا آزاد حسبِ معمول منہ اندھیرے چار بجے ہی اٹھے ہیں، پہلے کی طرح ہی نہانے کے بعد چائے بنانے رکھ رہے ہیں اور چائے کے بعد اسی پرانے رنگ ڈھنگ میں لکھنے بیٹھ گئے ہیں۔

نہرو نے انہی دنوں اپنی اہلیہ کو ایک خط لکھا جس میں مولانا کا احوال بھی قلم بند کیا۔ نہرو نے لکھا، ’مولانا کا حوصلہ حیران کن ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم صدمے میں ہیں اور وہ ڈھارس بندھا رہے ہیں۔ وہ اپنے غم کو چھپانے میں پوری طرح کامیاب ہیں مگر چہرے پہ بڑھتی ہوئی جھریاں روکنے میں وہ ناکام ہیں۔ یہ جھریاں صاف بتا رہی ہیں کہ تازہ صدمہ اندر ہی اندر بہت تیزی سے انہیں کھائے جا رہا ہے۔‘

نہرو کی یہ بات مولانا کی خود کلامی جیسی یاد داشتوں میں ان الفاظ کے ساتھ ملتی ہے۔ اس عرصے میں میں نے مدت کی مسافت طے کی ہے۔ میرے عزم اور حوصلے نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا مگر میں نے محسوس کیا ہے کہ میرے پاؤں شل ہو گئے ہیں۔

فرخی صاحب کی لکھنے کی رفتار ان دنوں تیز ہو چکی تھی۔ مطالعے میں ایک طرح کی شدت آ گئی تھی۔ وہ اپنے شاگردوں کے مزید قریب ہو چکے تھے۔ محفلوں میں برابر دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے لکھے میں کوئی شکایت نہیں تھی اور ان کے بول میں خود ترحمی کے آثار نہیں تھے۔ اس سارے بندوبست کے ذریعے وہ اپنا غم چھپانے میں کامیاب ہو گئے تھے، مگر جو درد انہیں اندر سے کاٹ رہا تھا اس کو آنکھوں کے گرد حلقہ جمانے سے وہ نہیں روک سکے۔

اس عرصے میں مدت کی جو مسافت انہوں نے کاٹی تھی اس کی تھکاوٹ نے گردن پر تہہ در تہہ ڈیرے ڈال لیے تھے۔ سامنے کی سرگرمیاں بتاتی تھیں کہ عزم وہمت نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا، مگر ڈھیلی پینٹ کے لٹکے ہوئے پائنچے بتاتے تھے کہ ان کے پاؤں شل ہو چکے ہیں۔

دوہزار پانچ کا زلزلہ آیا تو غالباً ’یہ زندگی بھی کیا زندگی ہے‘ کے عنوان سے انہوں نے زلزلے کا روزنامچہ لکھا تھا۔ حالیہ وبا کے دنوں میں انہوں نے تالہ بندی کا روزنامچہ لکھنا شروع کر دیا تھا۔ روزنامچے کا ایک حصہ شائع کرتے ہوئے وجاہت مسعود نے لکھا، ’جب وبا کا موسم گزر جائے گا تو اردو زبان میں ’تالہ بندی کا روزنامچہ‘ کے عنوان سے 2020 کے موسمِ بہار کی نشانی ایک کتاب کی صورت میں ہمارے پاس رہ جائے گی۔‘

مگر وقت کے سربستہ نوشتے میں صرف وبا کے موسم کے گزر جانے کی بات نہیں تھی۔ آصف فرخی کے گزر جانے کا حوالہ بھی کہیں درج تھا۔ روزنامچے میں ایک جگہ انہوں نے لکھا، ’وبا کے دنوں میں موت روز میری دہلیز پر آ کر بیٹھ جاتی ہے اور ایک نیا نام پکار جاتی ہے۔‘

اس دوران موت نے بالی وڈ کے اداکاروں عرفان خان اور رشی کپور، ہسپانوی ادیب سپل ویڈا، انگریزی شاعرہ ایون بولن، ڈینش زبان کے فلسطینی شاعر یحییٰ حسن کا نام پکارا اور آصف فرخی نے ان کا تعزیت نامہ لکھا۔ آج ہلکا سا تالا کھلا تو فرخی خود بھی اڑ کے کہیں دور نکل گئے۔ اب زمانہ دھوپ میں بیٹھ کر ان کا نوحہ لکھ رہا ہے۔

عرفان ستار کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو آصف فرخی ایک ایسی نظم بن گئے جس کی اٹھان تو خوب ہوتی ہے مگر اختتام ٹھیک سے نہیں بن پاتا۔ بعض اوقات ایسی ہی نظمیں ہوتی ہیں جو قاری کو بری طرح سے جکڑ لیتی ہیں۔ آصف فرخی ایسی ہی ایک نظم ہیں جو قاری کو جکڑا ہوا چھوڑ گئے۔ دنیا زاد کے آخری شمارے کو جانے کیا سوچتے ہوئے انہوں نے یہ عنوان دیا ہوگا۔ کتاب الوداع!

زیادہ پڑھی جانے والی ادب