کراچی طیارہ حادثہ: لاش نمبر 112 کا معمہ حل نہ ہو سکا

حادثے میں ہلاک ہونے والے کراچی کے مکینیکل انجینیئر احمد مجتبیٰ کے والد کا ڈی این اے سیمپل چھیپا سرد خانے میں موجود لاش نمبر 112 سے میچ کر گیا، لیکن یہ لاش پہلے ہی لاہور میں دفنائی جا چکی ہے۔

لاہور سے کراچی آنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی بدنصیب پرواز پی کے۔8303 کے حادثے کو دو ہفتے گزر چکے ہیں۔

حادثے میں لاشیں بری طرح مسخ ہونے کی وجہ سے ان کی شناخت میں تاخیر ہوئی لیکن بلا آخر اکثر خاندان اپنے پیاروں کی لاشیں ملنے کے بعد ان کی تدفین بھی کر چکے ہیں۔

تاہم ان لواحقین میں ایک خاتون ایسی بھی ہیں جو نہ اپنے شوہر کی لاش کو آخری بار دیکھ سکیں اور نہ ہی انہیں دفنا سکی ہیں۔ فضا خان کراچی کے علاقے گلستانِ جوہر کی رہائشی اور سافٹ ویئر انجینیئر ہونے کے علاوہ تین بچوں کی ماں ہیں۔

فضا کے شوہر 43 سالہ احمد مجتبیٰ خان مکینیکل انجینیئر تھے۔ وہ 22 مئی کو پرواز پی کے۔ 8303 کے ذریعے اپنے بیوی بچوں اور بوڑھے والدین کے ساتھ عید منانے کے لیے گھر آ رہے تھے۔

اس خوف ناک حادثے کو دو ہفتے گزرنے کے باوجود مجتبیٰ کی لاش ان کے گھر والوں کو اب تک نہیں مل سکی۔ ان کے بوڑھے والد عبد الموسط خان یوسف زئی اپنے بیٹے کی لاش کے لیے دربدر پھر رہے ہیں۔

انہوں نے کراچی یونیورسٹی کی ڈی این اے ٹیسٹنگ لیب میں تین بار اپنا ڈی این اے سیمپل دیا ہے لیکن ان کا سیمپل کسی لاش سے میچ نہیں ہو سکا۔

حال ہی میں طیارہ حادثے کے متاثرین پر مشتمل ایک گروپ نے مجتبیٰ کی اہلیہ فضا خان سے رابطہ کیا ہے۔ یہ گروپ لاہور کے  ایک رہائشی عارف اقبال فاروقی نے بنایا ہے، جو خود کئی دنوں تک اپنے بچوں کی لاشیں تلاش کرتے رہے مگر کراچی یونیورسٹی کی فرانزک لیب میں تاخیر کے باعث انہیں اپنے بچوں کا کوئی سراغ نہیں مل پا رہا تھا۔

بلا آخر کافی بھاگ دوڑ کے بعد عارف اپنے دونوں بچوں کی لاشیں ڈھونڈ کر تدفین کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

عارف اقبال اوردیگر لواحقین اس گروپ کے ذریعے طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کے شناخت عمل میں مدد کر رہے ہیں۔ اس گروپ نے پی آئی اے کی مدد سے مجتبیٰ کے والد کا کراچی میں لیا گیا ڈی این اے سیمپل لاہور بھجوایا، جہاں پنجاب فرانزک لیب میں اس کی جانچ کی گئی۔

ٹیسٹ کے رزلٹ سے معلوم ہوا کہ چھیپا سروس کے سرد خانے کی لاش نمبر112 کا ڈی این اے مجتبیٰ کے والد سے میچ کرگیا ہے، مگر گھر والوں نے جب لاش کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ عبدالقیوم نامی سٹیورڈ کے اہلِ خانہ لاش نمبر 112 وصول کرکے لاہور میں اس کی تدفین کر چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عبدالقیوم کے گھروالوں نے بتایا کہ کراچی یونیورسٹی فرانزک لیب کی ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ کے مطابق لاش نمبر 112 عبدالقیوم کی تھی۔ لاہور اور کراچی لیبارٹریز کی ٹیسٹ رپورٹس میں تضاد کے باعث کنفیوژن پیدا ہوگئی ہے۔

فضا کے مطابق اس کنفیوژن کے باعث اب دوبارہ ٹیسٹ ہوں گے۔ دو دن پہلے ہی فضا کے 80 سالہ سسر نے تیسری بار کراچی یونیورسٹی کی فرانزک لیب میں اپنا ڈی این اے سیمپل دیا ہے جبکہ پنجاب کی فرانزک لیب میں دوسری بار۔

فضا نے بتایا کہ جس دن طیارہ حادثہ پیش آیا اس کے اگلے دن ہی ان کے سسر اور مجتبیٰ کے بھائی نے ایدھی سینٹر میں موجود لاشوں کی جانچ کی تھی۔ ’وہاں لواحقین بغیر ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لاشوں کو تدفین کے لیے لے جا رہے تھے مگر مجتبیٰ کی ایسی کوئی نشانی نہیں تھی جس سے ہم ان کی شناخت کرتے۔

'مجھے جب یاد آیا کہ انہوں نے اس دن کیا پہنا ہوا تھا تو کئی دنوں تک میرے گھر والے لاشوں میں شرٹ کے ٹکڑے ڈھونڈتے رہے۔ جب اس کا بھی کوئی نشان نہیں ملا تو ہماری ساری امیدیں ڈی این اے ٹیسٹ کے رزلٹ سے وابستہ ہو گئیں مگر اس میں بھی ہمیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔‘

فضا کے مطابق مجتبیٰ انتہائی خوش مزاج اور زندہ دل انسان تھے۔ انہوں نے مہران یونیورسٹی جامشورو سے مکینیکل انجینیئرنگ کی تھی مگر اداکاری کا شوق بھی رکھتے تھے۔

 انہوں نے کراچی میں واقع نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس سے ایکٹنگ کی تربیت حاصل کرنے کے بعد متعدد سٹیج شوز میں اداکاری بھی کی تھی۔

تاہم انہوں نے والدین کے ڈر سے اداکاری جاری نہیں رکھی لیکن اپنے انجینیئرنگ کیریئر کے دوران  بڑی کمپنیوں کا حصہ رہے۔

مجتبیٰ کو آخری بار دیکھنے اور ان سے بات کرنے کے لمحات کو یاد کرتے ہوئے فضا نے لاہور ایئرپورٹ پر ریکارڈ ہونے والی ایک سی سی ٹی وی فوٹیج کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ فوٹیج دیکھنے سے پہلے میرے دل میں ایک امید تھی کہ شاید مجتبیٰ طیارے پر چڑھے ہی نہیں ہوں گے، اس لیے ان کی لاش نہیں مل رہی لیکن جب میں نے وہ فوٹیج دیکھی تو میرے دل پر جیسے ایک مہر لگ گئی کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ کاش وہ اس بدنصیب طیارے پر چڑھے ہی نہیں ہوتے۔‘

فضا کہتی ہیں کہ اگر ان کی تدفین لاہور میں ہو گئی ہے تو میں نہیں چاہتی کہ ان کی قبر کشائی ہو۔ 'مجھے بس یہ معلوم ہوجائے کہ میرے مجتبیٰ کہاں ہیں تو میرے دل کو سکون آجائے گا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس کیس کے حوالے سے پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ اور حادثے سے متعلق فوکل پرسن اور سینیئر جوائنٹ سیکریٹری ایوی ایشن ڈویژن عبدالستار کھوکھر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہ ہو سکی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان