سنتھیا کو تحقیقات کا اختیار کس نے دیا ہے: پی ٹی ایم

عام لوگوں کے ذہنوں میں سوال یہ ہی ہے کہ کیا حکومت اس واقعے کی اور سنتھیا کے دعوے کی تحقیقات کرے گی یا نہیں جبکہ الزامات کے بعد محسن داوڑ نے کہا ہے کہ سنتھیا ہیں کون اور انہیں تحقیقات کا اختیار کس نے دیا ہے؟

محسن داوڑ نکہتے ہیں کہ ہراساں تو سنتھیا ان کے کارکنوں کو کر رہی ہیں (اے ایف پی)

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کا کہنا ہے کہ امریکی خاتون شہری سنتھیا ڈی رچی ’اپنے مزموم عزائم کو لے کر پاکستان کے اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا رہی ہیں۔‘

امریکی شہری سنتھیا ڈی رچی نے اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو اپنے ایک حالیہ مکتوب میں لکھا ہے کہ وہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی سرگرمیوں کی گذشتہ کئی سالوں سے تحقیقات کر رہی تھیں تاہم وہ یہ کام کس حیثیت سے کر رہی تھیں اس کی انہوں نے وضاحت نہیں کی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے شمالی وزیرستان سے منتخب قومی اسمبلی کے رکن اور پی ٹی ایم کی کور کمیٹی کے رکن محسن داوڑ سے بات کی تو انہوں نے اس کو فوری طور پر رد کیا۔

’اول تو میں اس خاتون کو اتنا اہم سمجھتا ہی نہیں ہوں کہ اس پر بات بھی کروں لیکن آپ کے سوال پر اتنا کہوں گا کہ پاکستان کو اس وقت بہت سے اہم مسائل کا سامنا ہے۔ ان کا حل نکالنے کے لیے سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کی ری گروپنگ ہو رہی ہے، ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے، کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کا الگ سامنا ہے جس سے حکومت کی ناکامی اور نااہلی بےنقاب ہو رہی ہے۔‘

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پی ٹی ایم کو آغاز سے شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں را اور این ڈی ایس سے ملک مخالف سرگرمیوں کے لیے فنڈز لیتی ہے۔ تاہم پی ٹی ایم اس کی سختی سے انکار کرتی ہے۔

سنتھیا ڈی رچی نے اپنے ایک ٹویٹ میں یہ کہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں ہراساں کرنا تب شروع کیا جب انہوں نے دو سال پہلے پی ٹی ایم اور پی پی پی کے درمیان رابطوں اور تعلقات کی تحقیقات شروع کیں۔

اپنے ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے وزیر اعلی سندھ کے سپیشل اسسٹنٹ جاوید نایاب لغاری کو کہا کہ وہ خواہ مخواہ کی شکایت کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ تو پی پی پی اور پی ٹی ایم کے درمیان نکتوں کو ملا رہی ہیں۔

محسن داوڑ نے اس سوال کے جواب پر کہ کیا ان کی یا ان کی تحریک کے دوسرے قائدین کے ساتھ سنتھیا کی کبھی کوئی ملاقات ہوئی ہے کہا کہ ’پچھلے سال ڈیڑھ سال سے وہ مجھے بےتحاشا ٹویٹس میں ٹیگ کرتی رہی ہیں۔ اور اکثر لوگوں سے میرا رابطہ نمبر مانگتی رہتی تھیں۔ کئی لوگوں کے ذریعے مجھ سے ملاقات کا وقت بھی مانگا لیکن میں نے نظرانداز کیا۔‘

سنتھیا کو نظرانداز کرنے کی وجہ داوڑ نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’میں ان کی مشکوک سرگرمیاں دیکھ رہا تھا۔ میں ایک سیاسی ورکر رہا ہوں۔ ظاہر ہے مجھ میں لوگوں کو پرکھنے کی سمجھ بوجھ ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ کس حیثیت سے مجھ سے ملنا چاہ رہی تھیں۔ خود ہی اپنے آپ کو صحافی بھی کہہ رہی ہیں، انوسٹی گیشن بھی کرتی ہیں اور وی لاگز بھی بناتی ہیں۔ ان سے پوچھیں آپ ہیں کون؟ کس نے آپ کو تحقیقات کا اختیار دیا ہے۔‘

سنتھیا رچی کے اس الزام کے جواب پر کہ پشتون تحفظ مومنٹ کے لوگ انہیں ان کے ٹویٹ کے بعد ہراساں کرنے لگے ہیں، محسن داوڑ نے کہا کہ ہراساں تو سنتھیا پی ٹی ایم کے کارکنوں کو کر رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’کیا یہ ہراسمنٹ نہیں ہے جب وہ گلالئی اسماعیل کو لکھتی ہیں کہ ان کو پاکستان میں اپنے والدین کی زندگی کی پرواہ کرنی چاہیے۔ اور انہیں خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر وہ ہراسمنٹ کی بات کرتی ہیں تو یہ کام وہ خود کر رہی ہیں۔‘

پی ٹی ایم کی خواتین ارکان سے جب اس معاملے پر سوال کیا گیا تو سب نے اس موضوع پر یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کیا کہ وہ درپردہ عزائم رکھنے والی اس غیرملکی خواتین کو اس قابل نہیں سمجھتیں کہ ان پر تبصرے کریں۔

تاہم سابق رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی ایم کی حامی خاتون سیاستدان بشری گوہر نے سنتھیا رچی کے حوالے سے اپنے ٹویٹ میں سخت الفاظ میں کچھ دن قبل لکھا تھا کہ ’کس نے ایک امریکی بدزبان کو پاکستان میں ایک سیاسی پارٹی اور تحریک کی تحقیقات کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ہے؟ پی پی پی اوربلاول بھٹو نے تو ہمیشہ کھل کر پشتونوں اور پی ٹی ایم کےمطالبات اور آئینی حقوق کے لیے ان کی حمایت کی ہے۔‘

سینیئر صحافی اور اینکر مبشر زیدی نے بھی یہی سوال اٹھایا کہ وہ کس قانون او رویزے کے تحت یہ تحقیقات کر رہی تھیں؟

تنازعے کے آغاز میں اپنے تیز و تند بیانات کے بعد اب لگتا ہے سنتھیا ڈی رچی نے خاموشی اختیار کر لی ہے۔ کئی ٹی وی چینلز پر انہوں نے پہلے پرورگرام میں آنے کی حامی بھری اور پھر انکار کر دیا۔ عام لوگوں کے ذہنوں میں سوال یہ ہی ہے کہ کیا حکومت اس واقعے کی اور سنتھیا کے دعوے کی تحقیقات کرے گی یا نہیں۔

ادھر پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئیر رہنما اور سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے امریکی خاتون سنتھیا رچی کو پچاس ارب ہرجانے کا دوسرا نوٹس بھیج دیا ہے۔ ‎یہ نوٹس سنتیھیا رچی کو بذریعہ کورئیر بھیجوایا گیا ہے جو انہیں نجی ٹی وی چینلز پر انٹرویوز میں سینیٹر رحمان ملک کے خلاف ’ریپ کے بیہودہ و منگھڑت‘ الزامات لگانے پر جاری کیا گیا ہے۔

‎رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے احکامات اور پیمرا قوانین کے تحت الزامات ثابت ہونے سے پہلے میڈیا ٹرائل ایک جرم ہے۔ اس سے قبل بھی رحمٰن ملک امریکی خاتون کو 50 کروڑ روپے کا نوٹس بھیج چکے ہیں جو سوشل میڈیا پر ان کی اور بے نظیر بھٹو کی ساخت کو خراب کرنے کے جواب میں بھیجا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست