لیاری حادثہ: ’میرا تیس سال پرانا گھر تیس سیکنڈ میں ختم ہوگیا‘

’مجھے اتنا وقت بھی نہیں ملا کہ میں پیر میں دوسری چپل پہن سکتی۔ میں نے جلدی میں اپنا برقع اوپر ڈالا، وہ بھی پوری طرح نہیں پہنا تھا۔ بھائی مسلسل چیخ رہے تھے کہ جلدی کرو جلدی کرو۔

سندھ رینجرز، پولیس، پاک فوج انجینئرنگ کور اور ریسکیو اداروں کی جانب سے اب بھی ریسکیو کا کام جاری ہے (کمشنر کراچی)

اتوار کی شب کراچی کے علاقے نیا نواز آباد میں واقع لیاری کھڈا مارکیٹ کی پانچ منزلہ رہائشی عمارت زمیں بوس ہوگئی۔ عمارت میں سے اب تک 14 لاشیں نکالی جاچکی ہیں اور آٹھ افراد زخمی ہیں۔

سندھ رینجرز، پولیس، پاک فوج انجینئرنگ کور اور ریسکیو اداروں کی جانب سے اب بھی ریسکیو کا کام جاری ہے۔

اس عمارت کی پانچویں منزل پر فلیٹ نمبر 44 کی رہائشی آمنہ شمع ان زخمیوں میں سے ایک ہیں جنہیں فوری طور پر وہاں سے نکال کر سول ہسپتال منتقل کر دیا تھا۔

ملبے تلے دبنے کے باعث آمنہ کی دونوں ٹانگیں متاثر ہوئی ہیں لیکن ایک ٹانگ کی ہڈی پوری طرح ٹوٹ چکی تھی۔ آمنہ کے چھوٹے بھائی عبدالحمید کے مطابق ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اگر سرجری کامیاب نہیں ہوئی تو متاثر ہونے والی ٹانگ جسم سے علیحدہ کر دی جائے گی۔

اس حادثے میں آمنہ اور عبدالحمید کے بڑے بھائی نور محمد جن کی عمر 60 سال تھی کی لاش کو بھی 12 گھنٹوں بعد ملبے سے نکال کر اہلِ خانہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

آمنہ اس عمارت میں پچھلی تین دہایوں سے رہائش پذیر تھیں۔ وہ کئی سال تک اپنے شوہر کے ساتھ اس فلیٹ میں رہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے وہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ یہاں رہ رہی تھیں۔

ان کے بچے نہیں ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے شوہر کی دوسری شادی سے قبل یہاں کئی خوشگوار لمحات دیکھے ہیں۔ شادی کے بعد اس گھر میں آئی تھی۔ یہ میرے لیے صرف ایک فلیٹ نہیں تھا، یہ میرا 30 سال پرانہ گھر تھا جو 30 سیکنڈ میں ختم ہو گیا۔‘

حادثے والے دن کو یاد کرتے ہوئے آمنہ نے بتایا کہ ’ہر روز کی طرح میں صبح سے گھر کے کام میں مصروف تھی اور جس وقت لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ ہماری بلڈنگ ایک طرف جھک رہی ہے، میں اس وقت کپڑے دھو رہی تھی۔ مجھے اس دوران کچھ بھی محسوس نہیں ہوا۔ میرا چھوٹا بھائی جو میرے ساتھ یہاں رہتا تھا وہ پچھلے دو دن سے میرے والدین کے گھر پر تھا۔ میرا گھر پانچویں منزل پر تھا اس لیے مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ نیچے کیا ہلچل مچی ہوئے ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آمنہ کے مطابق اتوار کی رات عمارت گرنے سے کچھ وقت قبل ان کے بڑے بھائی نور محمد ان کی خیریت لینے پہنچے تو وہ بلڈنگ کے نیچے غیر معمولی رش دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ بلڈنگ کو خالی ہوتا ہوا دیکھ کر وہ بھی آمنہ کو باہر نکلانے کے لیے پانچویں منزل پر پہنچے تو اس کے چند لمحوں بعد ہی عمارت منہدم ہوگئی۔

اس حوالے سے آمنہ شمع کا کہنا تھا کہ ’میں اس وقت آرام کر رہی تھی جب بھائی اوپر آئے اور زور زور سے دروازہ بجانے لگے۔ میں بھاگتے ہوئے دروازہ کھولنے گئی تو وہ انتہائی پریشان اور گھبرائے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آمنہ سب چھوڑ دو فوراً باہر نکلو ہمیں بلڈنگ خالی کرنی ہے، لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔‘

آمنہ نے اس وقت کا منظر یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ان کہ وہ اندر بھاگتی ہوئی اپنا دوپٹہ، ابایا اور چپل ڈھونڈنے لگ گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اتنا وقت بھی نہیں ملا کہ میں پیر میں دوسری چپل پہن سکتی۔ میں نے جلدی میں اپنا برقع اوپر ڈالا، وہ بھی پوری طرح نہیں پہنا تھا۔ بھائی مسلسل چیخ رہے تھے کہ جلدی کرو جلدی کرو۔ مگر میں جب دروازے پر پہنچی تو میں نے آخری بار اپنے بھائی کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھا اور اس کے بعد ایسا لگا جیسے زلزلہ آگیا ہے۔‘

 آمنہ کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے یہ یاد ہے کہ میں کچھ پکڑنے کی کوشش کررہی تھی مگر کچھ بھی میرے ہاتھ میں نہیں آرہا تھا۔ اس کے بعد مجھے آخری چیز یہ یاد ہے کہ میں نے جب آنکھیں کھولیں تو میرا آدھا جسم کسی بھاری چیز کے نیچے دبا ہوا تھا۔ مجھے اپنی ٹانگیں محسوس نہیں ہورہی تھیں۔ ہر طرف دھواں ہی دھواں اور بے حد شور تھا۔ میرا حلق خشق تھا مگر میں نے بھائی کو آوازیں دیں۔ میں نے کافی دیر چیخیں ماریں تو لوگوں نے آکر مجھے باہر نکالنے کی کوشش کی۔‘

آمنہ شمع کے بڑے بھائی نور محمد عرف ببو رکشہ چلا کر اپنے گھر گا خرچ پورا کرتے تھے اور آمنہ کو بھی خرچے کی پیسے دیتے تھے۔

آمنہ سے ان کی عمارت کی حالت کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بلڈنگ کی حالت کا خستہ تھی۔

ان کا ارادہ تھا کی جلد ہی کسی اور جگہ شفٹ ہوجائیں اور اس حوالے سے وہ گھر بھی ڈھونڈ رہی تھیں۔

ایس ایس پی سٹی ڈویژن مقدس حیدر نے اس عمارت کے حوالے سے بتایا کہ یہ عمارت 36 سال پرانی تھی۔ دو ماہ قبل اس عمارت کو خالی کرنے کے لیے نوٹس جاری کیا جاچکا تھا لیکن اتوار کے روز اس میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں تھیں۔ عمارت میں سے ذٰیارہ تر لوگ جاچکے تھے مگر تقریباً 30 کے قریب لوگ عمارت میں اس وقت موجود تھے۔

ریسکیو کاروائیوں کے حوالے سے بتاتے ہوئے فیصل ایدھی کے بیٹے سعد ایدھی کا کہنا تھا کہ ملبے میں نیچے تک لاشیں دبی ہوئیں تھیں۔

انہوں نے حادثے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو آپریشن شروع کر دیا تھا مگر ابتدا میں وہ کرینوں کی مدد نہیں لے سکے تھے کیوں کہ اس کی وجہ سے برابر کی عمارتیں گرنے کا خطرہ تھا اس لیے لوگوں کی مدد سے ابتدا میں تمام ملبہ اٹھایا گیا۔

دو ماہ قبل کراچی کے علاقے گلبہار میں بھی ایک رہائشی عمارت گرنے کا واقع پیش آیا تھا جس میں 27 افراد ہلاک اور 20 افراد زخمی ہوئے تھے۔

کراچی کے متعدد گنجان آباد علاقوں میں رہائشی عمارتیں خستہ حالی کا شکار ہیں جس کے باعث اکثر ایسے حادثات پیش آتے ہیں۔

اس حادثے کے بعد صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ نے شہر قائد میں مخدوش عمارتوں کو خالی کروانے اور غیر قانونی تعمیرات کو رکوانے کا نوٹس لیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان