ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا

اب جبکہ دنیا کرونا کے سیاہ دن کرفیو میں گزار کر واپس معمول کی طرف آ رہی ہے تو پاکستان کرونا وبا کا عروج دیکھ رہا ہے۔ کرونا کا میٹر ڈاؤن ہے اور ہندسے اوپر جا رہے ہیں۔

ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا (اے ایف پی)

آج ہم آپ کو سناتے ہیں محمد رفیع کی آواز میں دیو آنند پر فلمایا گیا ساحر لدھیانوی کا گیت۔۔۔۔چچا گیرو نے دبی دبی سی ہنسی کے ساتھ تان لگائی

بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا

بربادیوں کا جشن مناتا چلا تھا

ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا

ہمارے کراچی والے چچا گیرو سے تعارف تو کئی بار کرا چکی ہوں۔ عمر یہی کوئی پچاس کے پیٹے میں آچکی ہے اس لیے میں نے فکرمندی کے ساتھ کال ملا لی۔ میں نے کہا ’چچا سنا ہے کرونا (کرونا) ان بڈھوں کا تعاقب زیادہ کرتا ہے جنہیں خود کے جوان ہونے کا گمان اب بھی ہے۔‘

آپ عفت حسن رضوی کا کالم ان کی اپنی آواز میں یہاں سن سکتے ہیں:

 

چچا گیرو نے شاید کرونا کی وبا پر وزیر اعظم کی تقریر کا کوئی کلپ شلپ دیکھ لیا تھا سو خلاف توقع موڈ اچھا تھا۔ میں طبیعت پوچھوں تو یہ کہیں گھبرانا نہیں۔ میں ان کے مزمن امراض یعنی کھانسی اور بند ناک کا حال پوچھوں تویہ دیو آنند کا گیت گنگنا دیں۔ کرونا کی وبا پر ہماری گفتگو اتنی ہی کنفوژن کا شکار تھی جتنا کے اس وقت حکومت، سپریم کورٹ اور عوام تذبذب کے گدلے پانی میں غرق ہیں۔

 ’کرونا پر ہماری قومی پالیسی بالکل ایسی ہی ہے کہ وبائی مرض نے سینہ جکڑ رکھا ہے اور ہم ثنا مکی کے پتے ابال ابال کر جلاب لے رہے ہیں تاکہ معدہ نتھر جائے۔‘ چچا گیرو نے یہ جملہ کہا اور کسی اجلت کا بہانہ بنا کر فون ڈھپ سے رکھ گئے۔

کرونا کو تباہی مچاتے جنوری سے جون چھ ماہ یعنی آدھا سال گزر گیا ہے۔ حکومت پاکستان اب تک شہریوں کو یہ بتانے میں کامیاب نہیں ہوسکی کہ:

کرونا پانچ لاکھ روپے اینٹھنے کے لیے ڈاکٹرز کی لالچ کا نام ہے؟

کرونا عالمی امداد سمیٹنے کے لیے حکومت پاکستان کے ٹھگوں کی کوئی نئی چال ہے؟

کرونا مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے اہل ہنود و یہود کی کوئی سازش ہے؟

کرونا دنیا کی آبادی کنٹرول خصوصاً بزرگ آبادی کی صفائی مہم ہے؟

کرونا بین الاقوامی دوا ساز کمپنیوں کا کاروباری حربہ ہے؟

کرونا دراصل فلو ہے، نزلہ زکام کھانسی گلے کی خراش کو بڑھا چڑھا کر بتایا جا رہا ہے؟

یا پھر کرونا واقعی کوئی وبا ہے جس سے سیاستدان بھی مر رہے ہیں، ڈاکٹرز بھی ۔ اطالوی بھی مر رہے ہیں، چینی بھی۔ مسلمان بھی مر رہے یہودی بھی۔

ایسا نہیں کہ ملک میں کرونا کا خطرناک حد تک پھیلاؤ صرف عمران خان کی وجہ سے ہوا۔ یہ آفت تو جلد یا بدیر آنی ہی تھی لیکن کرونا سے نمٹنے کی حکمت عملی اور پورے ملک میں یکساں رد کرونا پالیسی ہونی چاہیے تھی جو نہیں بنی۔

دسمبر جنوری میں جنوبی ایشیا کے عظیم کتھئی لوگ لہک لہک کر یہ کہتے پائے گئے کہ چمگاڈر کھانے والوں کے ساتھ تو یہی ہوگا۔ ہم تو پیاز، لہسن ادرک، گرم مسالے کھانے والے لوگ ہیں کرونا ہمارا کیا بگاڑے گا۔

یہاں پاکستان میں کرونا کی آمد کا پہلا ماہ تو ملک میں کرونا کا مسلکی مسئلہ نمٹاتے گزر گیا۔ کبھی انگلیاں ایران سے آئے زائرین پر اٹھیں اور کبھی تبلیغی جماعت قصوروار ٹھہری۔ کرونا پھیل تو گیا لیکن اس کے فرقے کا تعین نہ ہو سکا۔

پھر ایک ماہ ڈاکٹرز کو پیپنی اور باجے تاشے کے سلام ٹھونکے گئے، فرنٹ لائن سولجر جیسے القابات دیئے گئے۔ اگلے ماہ ڈاکٹرز کی ٹھائی لگائی گئی کہ ابے سالے پیسے کی خاطر کرونا کا انجکشن لگا رہا ہے۔

ایک مہینہ رونے میں نکل گیا کہ ڈاکٹرز کو ماسک اور حفاظتی سوٹ دیے جائیں۔ اگلے ہی ماہ دنیا میں ناک اونچی کرنے کی خاطر جہاز بھر کر امریکہ کو امداد میں طبی سامان بھیج دیا گیا۔

ماہ رمضان میں مساجد پر چھاپوں کی آنکھ مچولی کھیلی گئی کہ دیکھ بھائی نماز پڑھ لے لیکن قریب مت آئیو۔ ماہ شوال کا چاند دیکھتے ہی عوام کو پرہجوم بازاروں کی طرف ہانک دیا گیا کہ شاپنگ کے ساتھ کرونا وائرس بالکل مفت پائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم نے مانا کہ خان صاحب کرکٹر رہے ہیں، طب کے شعبے سے وہ دور دور کا تعلق بھی نہیں رکھتے مگر طبی معاملات کے مشیر خان صاحب کو ٹھیک مشورے درست وقت پر دینے میں ناکام رہے ہیں۔

پہلے ان پُرمغز افراد نے خان صاحب کو لاک ڈاؤن کی مخالفت کا مشورہ دیا، پھر ان دیکھی اشرافیہ نے لاک ڈاؤن کرا دیا۔ پھر کسی عقل مند نے خان صاحب کے چٹکی بھر دی کہ اجی یہ تو فلو ہے ڈر کاہے کا۔

عید سے پہلے خان صاحب سے کہلوایا گیا کہ عوام خود احتیاط کرے ہم ملک بند نہیں کرسکتے پھر یہ کہ جتنے کرونا کیسز کا اندازہ لگایا تھا ابھی اتنے ہوئے نہیں۔اب گورنرز، وزیر مشیر سب یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ بڑا ہی جان لیوا مرض ہے، کہیں تباہی نہ آجائے۔

اب جبکہ دنیا کرونا کے سیاہ دن کرفیو میں گزار کر واپس معمول کی طرف آ رہی ہے تو پاکستان کرونا وبا کا عروج دیکھ رہا ہے۔ کرونا کا میٹر ڈاؤن ہے اور ہندسے اوپر جا رہے ہیں۔

کون کم بخت کرونا کا علاج مانگ رہا ہے۔ کس کوتاہ اندیش کو حکومت سے معجزے کی امید ہے۔ یہ بھلا کس نے کہا کہ جو امریکہ نہ کرسکا وہ کر ڈالو۔  مگر کم از کم ہمیں بھی وہ میٹھی گولی دے دو جس سے سب اچھا نظر آتا ہے، کرونا فلو لگتا ہے، اختلاج قلب کو ٹھنڈ پڑتی ہے اور گھبراہٹ کا خاتمہ ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ