طویل تاخیر کے بعد 11 ویں این ایف سی کا ابتدائی اجلاس آج

اجلاس کے دوران وفاق اور صوبوں کے درمیان آئندہ مالیاتی ایوارڈ کی تیاری، محصولات کی تقسیم اور مالی نظم و ضبط سے متعلق اہم معاملات پر مشاورت کی جائے گی۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت 18 نومبر 2025 کو اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس کا منظر (وزارت خزانہ ایکس اکاؤنٹ)

11ویں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کا ابتدائی اجلاس آج منعقد ہوگا، جس کے دوران وفاق اور صوبوں کے درمیان آئندہ مالیاتی ایوارڈ کی تیاری، محصولات کی تقسیم اور مالی نظم و ضبط سے متعلق اہم معاملات پر مشاورت کی جائے گی۔

این ایف سی ایوارڈ پاکستان کا وہ آئینی و مالیاتی میکانزم ہے، جس کے ذریعے وفاق اور چاروں صوبوں کے درمیان آمدنی اور وسائل کو تقسیم کیا جاتا ہے۔

اس کا آغاز سال 1974 میں اس وقت ہوا جب آئین پاکستان کے آرٹیکل 160 کے تحت وفاق اور صوبوں کے درمیان مالیاتی شراکت داری کو منظم کرنے کے لیے پہلا کمیشن قائم کیا گیا۔

پاکستان میں اس وقت ساتواں این ایف سی ایوارڈ چل رہا ہے جس کا اطلاق 2010 میں کیا گیا۔ اگر تواتر کے ساتھ ایوارڈ طے ہوتے تو اس وقت دسویں این ایف سی ایوارڈ کا اطلاق جاری ہوتا۔

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت ہونے والے گیارہویں اجلاس کا مقصد آئندہ این ایف سی ایوارڈ کے لیے حکمت عملی ترتیب دینا ہے اور اس حوالے سے ذیلی گروپوں کی تشکیل پر غور کیا جائے گا۔

فنانس ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ ایجنڈے کے مطابق چاروں صوبے پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ اپنی مالی صورت حال اور بجٹ ضروریات پر 10، 10 منٹ کی بریفنگ بھی دیں گے جبکہ مستقبل کے اجلاس کی ٹائم لائن اور مقامات بھی طے کیے جائیں گے۔

نیا این ایف سی کمیشن 22 اگست کو قائم کیا گیا تھا اور اس میں چاروں صوبائی وزرائے خزانہ کے علاوہ ماہرین کو بھی بطور غیر سرکاری ممبران شامل کیا گیا۔

این ایف سی ہے کیا؟

این ایف سی ایوارڈ کا بنیادی مقصد صوبوں کو منصفانہ حصہ فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے ترقیاتی اور روزمرہ کے اخراجات پورے کر سکیں جبکہ وفاق کو بھی مالی ذمہ داریوں کے لیے مناسب وسائل مل سکیں۔

پاکستان میں صوبوں میں ٹیکسز جمع کرنے کا نظام وفاقی حکومت کے پاس ہے جب کہ صوبے بہت کم اشیا پر خود ٹیکس لگا سکتے ہیں۔

ٹیکسز کی مد میں جمع ہونے والی رقم میں سے صوبوں کو ایک مخصوص حصہ دیا جاتا ہے، جو ہر صوبے میں موجود ٹیکس دہندگان وفاقی حکومت کے پاس جمع کرتے ہیں، جس میں جنرل سیلز ٹیکس جیسے ٹیکس بھی شامل ہیں۔

آئین کی شق 160 کے تحت 2010 میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے صوبوں کے عوام سے جمع کیے گئے ٹیکس وفاقی حکومت کے زیر انتظام فیڈرل ڈویزیبل پول میں جمع ہوتے اور بعدازاں صوبوں میں تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے مطابق فیڈرل ڈویزیبل پول میں 57.5 فیصد حصہ صوبوں جبکہ 42.5 فیصد وفاقی حکومت کے پاس رہتا ہے۔

اس کے بعد 57.5 فیصد حصے کو صوبوں میں آبادی، غربت اور ریوینیو کولیشن کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ خیبر پختونخوا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں فیڈرل ڈویزیبل پول سے ایک فیصد اضافی حصہ دیا جاتا ہے۔

پہلے این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم زیادہ تر آبادی کی بنیاد پر ہوتی تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ غربت، ترقیاتی ضروریات، محصولاتی صلاحیت اور دیگر اقتصادی معیار کو بھی شامل کیا گیا۔

عمومی طور پر ہر ایوارڈ چار یا پانچ سال کے لیے ہوتا ہے اور اس کے لیے وفاق اور صوبوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا جاتا ہے۔

ماضی میں این ایف سی ایوارڈ کو لے کر وقتاً فوقتاً صوبوں کے اختلافات سامنے آتے رہے ہیں اور ان میں بیشتر اوقات سندھ تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔

گذشتہ برس میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاق کی جانب سے یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ نئے این ایف سی ایوارڈ میں کچھ حصے وفاقی بجٹ خسارے یا اخراجات کم کرنے کے لیے مختص کیے جائیں۔ تاہم وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایسی کسی ترمیم کی قبولیت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے آئینی حصے کو کم نہیں ہونے دیں گے۔

رواں برس نومبر میں ہی خیبر پختونخوا اسمبلی نے مطالبہ کیا ہے کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) کو اضافی حصہ دیا جائے کیونکہ وہ سابق آزاد علاقے ہیں اور ان کی ترقی کو مکمل مالی معاونت چاہیے۔ ساتھ ہی این ایف سی شیئر کو کم کرنے کی کسی آئینی ترمیم کی کوشش کی مخالفت بھی کی گئی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت