وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی نے گذشتہ دنوں پشاور میں صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد بتایا کہ ان کی حکومت چار دسمبر کو بلائے گئے قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے اجلاس میں شرکت کر کے صوبے کا مقدمہ لڑے گی۔
خیبر پختونخوا حکومت کا شروع دن سے گلہ رہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کو اس کے جائز حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اس میں قبائلی اضلاع کے ضم ہونے کے بعد این ایف سی میں خیبر پختونخوا کا حصہ نہ بڑھائے جانے کا گلہ بھی شامل ہے۔
اسی حوالے سے پیر کو صوبے کے مختلف جامعات میں وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا کی ہدایت پر این ایف سی کے بارے میں آگاہی سیمینارز بھی منعقد کیے گئے، جن کا مقصد صوبائی حکومت کے مطابق نوجوانوں کو بتانا تھا کہ صوبے کے ساتھ کیا امتازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
کیا عمران خان کی دور میں زیادہ پیسے ملے؟
این ایف سی ایوارڈ کی مد میں ہر سال صوبوں کو پیسے ملتے ہیں اور انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاق اور خیبر پختونخوا دونوں میں حکومت کے دوران این ایف سی کی مد میں فنڈز ملنے کا پاکستان مسلم لیگ کے ادوار کے ساتھ موازنہ کیا۔
انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود سرکاری دستاویزات کے مطابق عمران خان جب وزیر اعظم تھے تو مالی سال 2019۔20 میں وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کو قبائلی اضلاع کو ایکسلیریٹڈ ایمپلیمینٹیشن پروگرام (اے آئی پی) کی مد میں 97.5 ارب روپے دیے گئے جبکہ 2020۔21 میں 119 ارب سے زیادہ رقم دی گئی۔
اسی طرح 2021۔22 میں خیبر پختونخوا کو 109.9 ارب روپے ملے تھے جبکہ نگران دور حکومت کے دوران 2022۔23 میں 98.4 ارب وفاقی حکومت کی جانب سے دیے گئے۔
فروری 2024 میں ملک میں عام انتخابات ہوئے اور پاکستان مسلم لیگ کی اتحادی دور حکومت میں خیبر پختونخوا کو 2024۔25 میں 77 ارب روپے سے زیادہ ملے۔
اب اگر این ایف سی کی مد میں ملنے والی رقم کی بات کی جائے تو 2020۔21 میں صوبے کو 373 ارب روپے، 2021۔22 میں 499 ارب اور 2022۔23 میں 586 ارب روپے ملے۔
اس کے بعد نگران دور حکومت میں 2023۔24 میں صوبے کو 765 ارب ملنے تھے لیکن 713 ارب روپے دیے گئے جبکہ 2024۔25 میں 903 ارب روپے ملنے کی توقع ہے۔
بجلی کے خالص منافع کے اعداد و شماد اور وفاق کی جانب سے دیے گئے رقم کی جانچ پڑتال سے واضح ہو جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبے اور وفاق میں حکومتوں کے باوجود خیبر پختونخوا کو بجلی کے خالص منافع کی مد میں پوری رقم نہیں ملی۔
انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود سرکاری دستاویزات کے مطابق جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو اس وقت 2019۔20 میں وفاق نے بجلی کے خالص منافع کی مد میں تقریباً 56 ارب روپے دینے تھے لیکن صرف 16 ارب کی ادائیگی کی گئی۔
اسی طرح 2020۔21 میں وفاق نے خیبر پختونخوا کو تقریباً 58 ارب روپے کے بجائے 47 ارب روپے دیے جبکہ 2021۔22 میں 74 ارب روپے کے بجائے محض 21 ارب روپے دیے گئے۔
پی ڈی ایم کی نگران حکومت کے دوران خیبر پختونخوا کو ملنے والی رقم کم ہوئی اور 2022۔23 میں تقریباً 62 ارب روپے ادا کرنے کے بجائے صرف تقریباً پانچ ارب دیے گئے جبکہ 2023۔24 میں 85 ارب کے بجائے صرف ساڑھے آٹھ ارب روپے دیے گئے۔
پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں خیبر پختونخوا کے بقایاجات کی ادائیگیوں کے معاملے پر ماضی میں ایم ایم اے سے لے کر وزیر اعلی علی امین گنڈاپور تک وفاق سے بات کرچکے ہیں لیکن بقول ان کے فائدہ نہیں ہوا۔ علی امین کے دور میں اس سال اپریل تک باقاعدگی ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے خیبرپختونخوا کی 75 ارب روپے کی واجبات جمع ہوئے۔
اے جی این قاضی فارمولہ اور بجلی کا خالص منافع
این ایف سی ایوارڈ کے علاوہ وفاقی حکومت جن صوبوں میں بجلی بنانے والے پاور سٹیشنز موجود ہیں انہیں بجلی کی پیداواری قیمت اور ترسیل کا خرچہ منہا کر کے خالص منافع کی مد میں 1986 میں بنائے گئے اے جی این قاضی فارمولے کے تحت ادائیگی کرتی ہے۔
اس فارمولے کے تحت 1991 میں بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت 0.21 روپے مقرر ہوئی اور خیبر پختونخوا کو بجلی کے خالص منافع کی مد میں سالانہ چھ ارب روپے ملنا طے پائے لیکن بعد میں صوبائی حکومت کے مطابق اس ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا گا۔
وار ان ٹیرر کی مد میں ملنے والی رقم
وار ان ٹیرر کی مد میں ڈویزیبل پول کے ایک فیصد حصے میں سے 2020 میں خیبر پختونخوا کو 45 ارب روپے، 2021۔22 میں 60 ارب، 2022۔23 میں 70 ارب اور 2023۔24 میں 86 ارب روپے وفاقی حکومت نے ادا کیے۔
وار ان ٹیرر کی مد میں عمران خان کے دور حکومت اور بعد میں ملنے والی رقوم میں بھی بہت بڑا فرق نہیں پایا گیا جبکہ نگران دور میں بھی صوبے کو یہ رقم ادا ہوتی رہی ہے۔
منظور علی پشاور میں روزنامہ ڈان سے وابستہ صحافی ہیں اور بجٹ کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق این ایف سی کا حصہ ہو یا بجلی کا خالص منافع، اس میں کمی ہر دور میں دیکھی گئی اور صوبے کا وہ حصہ نہیں دیا جاتا جو بنتا ہے۔
تاہم منظور کے مطابق یہ مسئلہ اس وقت بھی تھا جب صوبے اور وفاق دونوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں تھیں اور ابھی قبائلی اضلاع کے لیے جو حصہ مانگا جا رہا ہے تو یہ اس دور میں آسانی سے ہو سکتا تھا۔
منظور علی نے بتایا، ‘قبائلی اضلاع 2018 میں ضم ہوئے اور اس وقت عمران خان وزیر اعظم تھے اور خیبر پختونخوا میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔
’تو ایسے وقت این ایف سی میں قبائلی اضلاع کو شامل نہ کرنا پی ٹی آئی کی ناکامی تھی اور اب وفاق میں حزب اختلاف کی جماعت ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ گھمبیر ہوگیا ہے۔‘
اس معاملے پر صوبائی وزیر برائے بلدیات مینا خان آفریدی سے دریافت کیا گیا کہ عمران خان کے وقت این ایف سی کا معاملہ حل کیوں نہیں ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ ’تب بھی حل کرنا چاہیے تھا اور اب حل کرنا چاہیے۔‘
مینا خان افریدی نے بتایا، ’2019 میں کرونا وبا کی وجہ سے پوری دنیا متاثر تھی لیکن اس وقت دو دفعہ این ایف سی کے اجلاس ہوئے لیکن بدقسمتی سے نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا میں 2020 کے دوران اس مسئلے پر کافی بحث ہوئی تھی اور اس وقت کے مشیر برائے توانائی حمایت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم وفاق سے جب پیسوں کی بات کرتے ہیں، تو وہ کہتے ہے کہ ’ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں تو کہاں سے رقم ادا کریں۔‘
انہوں نے بتایا تھا کہ اس معاملے پر کئی بار وفاقی حکومت سے بات ہوئی ہے لیکن بجلی کے خالص منافع اور این ایف سی کی واجب الادا رقوم وفاقی حکومت سے خیبر پختونخوا کو نہیں دی جا رہیں۔
خیبر پختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم سے انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر تفصیلات اور موقف جاننے کی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔
این ایف سی کیا ہے؟
پاکستان میں صوبوں میں ٹیکسز جمع کرنے کا نظام وفاقی حکومت کے پاس ہے جب کہ صوبے بہت کم اشیا پر خود ٹیکس لگا سکتے ہیں۔
ٹیکسز کی مد میں جمع ہونے والی رقم میں سے صوبوں کو ایک مخصوص حصہ دیا جاتا ہے، جو ہر صوبے میں موجود ٹیکس دہندگان وفاقی حکومت کے پاس جمع کرتے ہیں، جس میں جنرل سیلز ٹیکس جیسے ٹیکس بھی شامل ہیں۔
آئین کے شق 160 کے تحت 2010 میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے صوبوں کی عوام سے جمع کیے گئے ٹیکسوں کو وفاقی حکومت کے زیر انتظام فیڈرل ڈویزیبل پول میں جمع ہوتے اور بعدازاں صوبوں میں تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔
ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے مطابق فیڈرل ڈویزیبل پول میں 57.5 فیصد حصہ صوبوں جبکہ 42.5 فیصد وفاقی حکومت کے پاس رہتا ہے۔
اس کے بعد 57.5 فیصد حصے کو صوبوں میں آبادی، غربت اور ریوینیو کولیشن کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ خیبر پختونخوا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں فیڈرل ڈویزیبل پول سے ایک فیصد اضافی حصہ دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت ساتواں این ایف سی ایوارڈ چل رہا ہے جس کا اطلاق 2010 میں کیا گیا۔ اگر تواتر کے ساتھ ایوارڈ طے ہوتے تو اس وقت دسویں این ایف سی ایوارڈ کا اطلاق جاری ہوتا۔
تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ 2009 میں این ایف سی طے ہوا ٹیکس وصولی جی ڈی پی کے 9.2 فیصد برابر تھی، آج 15 سال بعد ٹیکس وصولی جی ڈی پی کے 9.5 فیصد کے برابر ہے۔
طویل تاخیر کے بعد اب وفاقی حکومت نے 11ویں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کا افتتاحی اجلاس 4 دسمبر کو طلب کر لیا ہے۔ تمام توجہ اسلام آباد میں اس متوقع اجلاس پر ہیں کہ وہاں کیا فیصلے ہوتے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت ہونے والے اس اجلاس میں تین نکاتی ایجنڈا زیر غور ہو گا۔