کرونا سے نمٹنے کے لیے 70 ارب روپے، تنخواہوں میں اضافے کا ذکر نہیں

آئندہ مالی سال کے دوران وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 71 کھرب 37 ارب روپے لگایا گیا ہے، جبکہ حکومتی آمدن کا اندازہ 6573 ارب روپے ہے، یوں حکومت کو آئندہ مالی سال کے دوران 3437 ارب روپے کے خسارے کا سامنا رہے گا۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے مالی سال 21-2020 کے لیے بغیر کوئی نیا ٹیکس لگائے خسارے کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔

 آئندہ مالی سال کا بجٹ وزیر برائے صنعت و سرمایہ کاری محمد حماد اظہر نے جمعے کی شام قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیا۔

بجٹ تقریر کے دوران حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی نے ایوان میں احتجاج کیا اور ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے۔ انہوں نے وفاقی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف نعرہ بازی کی۔

وفاقی وزیر نے ایوان کو بتایا کہ مالی سال 21-2020 کے دوران وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 71 کھرب 37 ارب روپے لگایا گیا ہے، جبکہ حکومتی آمدنی کا اندازہ 6573 ارب روپے ہے۔ یوں حکومت کو آئندہ مالی سال کے دوران 3437 ارب روپے کے خسارے کا سامنا رہے گا، جو مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا سات فیصد ہے۔

اسی طرح آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاعی اخراجات کے لیے تقریباً 13 کھرب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، جبکہ تعلیم کے لیے 15 ارب روپے اور صحت کے لیے 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے دوران کرونا وائرس کی وبا سے لڑنے کے لیے 70 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی ہے جبکہ کمزور طبقات کی مدد کے لیے حکومت نے احساس پروگرام کے لیے مختص رقم کا حجم بڑھا کر 208 ارب روپے کرنے کی تجویز دی ہے۔

آئندہ مالی سال کے دوران حکومت نے کئی ایک اشیا کی درآمد پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) بڑھانے کی تجویز پیش کی ہے، جن میں تمباکو نوشی کے لیے استعمال ہونے والی اشیا بشمول سگریٹ، سگار اور ای سگریٹ وغیرہ شامل ہیں۔ ان اشیا پر ایف ای ڈی 65 فیصد سے بڑھا کر سو فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

اسی طرح کیفین والے مشروبات کی برآمد پر ایف ای ڈی 13 سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

حکومت نے ڈبل کیبن پک اپس پر بھی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے کی تجویز پیش کی ہے۔

آئندہ مالی سال کے دوران حکومت نے مختلف صنعتوں میں استعمال ہونے والے بیرون ملک سے برآمد کیے جانے والے خام مال میں 20 ہزار اشیا پر کسٹم ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز پیش کی ہے جبکہ دو ہزار دوسری چیزوں پر کسٹم ڈیوٹی کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

سمگلنگ کی روک تھام کے لیے حکومت نے کئی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ ان اشیا میں کپڑا اور سینیٹری کا سامان وغیرہ شامل ہیں۔

وفاقی حکومت نے بیرون ملک سے آنے والے کرونا وائرس اور کینسر کی دوائیوں میں استعمال ہونے والے کیمیاوی مادوں اور بچوں اور حاملہ خواتین کے لیے فوڈ سپلیمنٹس وغیرہ کو بھی کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ کرنے کی تجویز دی ہے۔

اسی طرح کرونا وائرس اور صحت سے متعلق سازو سامان پر کسٹم ڈیوٹی تین ماہ تک نہ وصول کرنے کی تجویز ہے۔

سیلز ٹیکس کے نیٹ کو بڑھانے کے لیے حکومت نے شناختی کارڈ کی شرط کے لیے خریداری کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ 

پاکستان میں بننے والے موبائل فونز پر آئندہ سال کے دوران سیلز ٹیکس ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی دو روپے فی کلو سے کم کرکے 1.75 فی بوری کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

بجٹ پر ماہرین کیا کہتے ہیں؟

معاشی ماہرین نے تحریک انصاف حکومت کے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں  پیش کردہ تجاویز کو کرونا وائرس کی وبا کے تناظر میں ناکافی قرار دیا ہے۔

اس بارے میں معاشی ماہر خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ اس وقت کرونا وائرس کی وبا کے باعث ملک میں غیر معمولی حالات ہیں اور ایسے میں حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے جو اقدامات تجویز کیے ہیں وہ کسی بھی طرح کافی نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے محض چند ٹیکسوں میں تبدیلی کافی نہیں ہے بلکہ ٹیکسوں کے نظام کو کچھ اس طرح سے ریشنالائز کیا جاتا کہ اس سے معیشت کو دور رس فائدہ پہنچتا۔

خرم شہزاد نے مزید کہا کہ اسی طرح زراعت اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں کے لیے بجٹ میں قابل تعریف تجاویز پیش نہیں کی گئی ہیں۔

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سینئیر رکن علی حسام کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وبا کی موجودگی میں دنیا بھر میں اشیا کی ڈیمانڈ میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں لگژری اشیا کی کوئی ڈیمانڈ نہیں رہی بلکہ لوگوں کی بڑی ضرورت بنیادی استعمال کی چیزیں ہیں۔ جن میں خوراک کی اشیا سرفہرست ہیں۔

’ایسی صورت حال میں وفاقی حکومت کو حلال خوراک کی صنعت کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینا چاہیے تھیں۔‘

اسی طرح علی حسام نے کہا کہ کووڈ سے متعلق ٹیکسٹائل کی صنعت کے فروغ سے بھی ملک میں معاشی اور کاروباری سرگرمی کو زیادہ کیا جا سکتا ہے۔

صدر مرکزی تنظیم تاجرن کاشف چوھدری نے ایک بیان میں کہا کہ ریلیف اور ٹیکس فری کے نام پر تاجر برادری کو عملا بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔

بجٹ کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صنعت و تجارت کی ترقی، زراعت  کے لیے عملا کچھ نیا نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت