غزالہ جاوید: میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اسے۔۔

خیبرپختونخوا کی ہر دلعزیز گلوکارہ غزالہ جاوید کی آج آٹھویں برسی ہے، جنہیں 2012 میں قتل کردیا گیا تھا۔

غزالہ جاوید ٹی وی سکرین پر جتنی خوبصورت لگتی تھیں، اس سے کہیں زیادہ وہ حقیقت میں دلکش شخصیت کی مالک تھیں(فائل تصویر: سوشل میڈیا)

خیبر پختونخوا کی ہر دلعزیز گلوکارہ غزالہ جاوید  کی آج آٹھویں برسی ہے۔ انہیں 2012 میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے  قتل کردیا تھا، جس سے متعلق مختلف افواہیں آج بھی گردش میں ہیں، تاہم مقتولہ کی والدہ نے الزام ان کے سابق شوہر پر لگایا تھا۔

عدالت نے غزالہ کے سابق شوہر جہانگیر خان کو قتل کے الزام میں دو بار پھانسی کی سزا سنائی تھی، تاہم بعدازاں دونوں فریقین نے راضی نامہ کرکے مقدمہ ختم کر دیا تھا۔

بحیثیت ایک صحافی غزالہ جاوید کے ساتھ میری بھی کئی مرتبہ ملاقات ہوئی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں براڈ کاسٹ جرنلسٹ کی حیثیت سے ایک نجی ٹی وی چینل میں کام کیا کرتی تھی۔

ایک دن دوران ڈیوٹی میری ایک کولیگ نے بتایا کہ دفتر میں ایک خونصورت لڑکی آئی ہے۔اس کا ذکر انہوں نے پشتو میں اس طرح کیا کہ ’مړې سمہ خائستہ دہ کنہ۔‘

میں نے کولیگ کی بات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی اور اپنے کام میں مصروف رہی۔

یہاں عرض کرتی چلوں کہ میرے پرانے دفتر میں ایک جانب نیوز چینل اور ساتھ ہی انٹرٹینمنٹ چینل ہوا کرتا تھا، لہذا سیاسی اور کرنٹ افیئرز کے پروگراموں کے علاوہ وہاں آئے دن موسیقی اور ادب کے پروگرام بھی ہوتے تھے۔

ایک دن بیسمنٹ سے طبلے اور بانسری کی آوازیں آرہی تھیں۔ پروگرام پروڈیوسر، مرکزی کنٹرول روم (ایم سی آر) سے کیمرہ مین اور سیٹ ڈیزائنرز کو ہدایات دے رہے تھے، میں خود کسی پروگرام میں مصروف تھی اور بھاگم بھاگ سیڑھیاں چڑھ رہی تھی کہ اتنے میں ایک نہایت پیاری، دھان پان سی ایک لڑکی خوبصورت سا سرخ لباس زیب تن کیے ہوئے سیڑھیاں اتر رہی تھیں۔ وہ مجھے دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ شخصیت اتنی منفرد اور دلکش تھی کہ میں خود کو دوبارہ پلٹ کر دیکھنے سے روک نہ پائی۔ معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ یہ غزالہ جاوید ہیں، جن کا گلوکاری کی دنیا میں یہ پہلا دن تھا۔

غزالہ جاوید نے اس دن جو گانے گائے، ان کی بدولت وہ آسمان کی بلندیوں پر جا پہنچیں۔ لوگ ان کے بارے میں پوچھنے لگے۔ ان کے مداح ہمارے دفتر فون کرکے ان کا رابطہ نمبر مانگنے لگے۔ خود مجھے بھی یونیورسٹی فیلوز اور نہ جانے کہاں کہاں سے کالز موصول ہوئیں۔

غزالہ جاوید کا مہذب انداز اور خوش مزاجی دیکھ کر وہ مجھے اچھی لگتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب اکثر اوقات وہ اپنے پروگرام سے پہلے میرے دفتر میں آکر بیٹھتی تھیں تو ہم تھوڑی بہت بات کرلیتے تھے یا پھر صرف مسکرانے پر اکتفا کرکے خاموش ہوجاتے تھے۔

غزالہ جاوید ٹی وی سکرین پر جتنی خوبصورت لگتی تھیں، اس سے کہیں زیادہ وہ حقیقت میں دلکش شخصیت کی مالک تھیں۔

ان کے والد محمد جاوید سائے کی طرح ان کے ساتھ ہوتے تھے، بلکہ ان کا موبائل بھی والد کے پاس ہوتا تھا۔ یہ اندازہ مجھے اس دن ہوا، جب میں نے ان کے ایک گانے پر داد دینے کے لیے دوران تقریب کال کی۔ غزالہ جاوید نے اس تقریب میں ایک گانا  ’خو لگ راشہ کنہ‘ گایا جو بعد میں بہت مقبول ہوا۔ غزالہ جاوید گاتی رہیں اور اداکار سید رحمٰن شینو مزاحیہ انداز میں رقص کرتے رہے۔

غزالہ جاوید اپنے فن کے عروج پر تھیں، جب ان کے والد نے ان کی شادی تقریباً 50 سالہ شادی شدہ جہانگیر نامی شخص سے کروائی۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کا فیصلہ پیسوں کے عوض کیا تھا، جس کا ان کے پرستاروں کو بہت دکھ تھا۔

 شادی کے بعد غزالہ جاوید نے موسیقی کی دنیا سے کچھ عرصے کے لیے دوری اختیار کی، تاہم جب انہوں نے دوبارہ گلوکاری کے میدان میں قدم رکھا تو ان کے جسم اور چہرے پر خراب ازدواجی زندگی کے اثرات نمایاں تھے۔

شادی کے کچھ ہی مہینوں بعد 2012 میں انہوں نے عدالت میں طلاق کے لیے مقدمہ دائر کر دیا، تاہم فیصلہ آنے سے پہلے ہی ان کو قتل کردیا گیا۔ اس حملے میں غزالہ جاوید کے والد بھی قتل ہوئے جب کہ ان کی بہن زخمی ہوئی تھیں۔

غزالہ جاوید کا تعلق سوات کے علاقے بنڑ سے تھا۔ بنڑ موسیقاروں کا علاقہ ہے، جس نے موسیقی کی دنیا میں کئی نام پیدا کیے ہیں۔ 2006 اور 2007 میں جب شدت پسندی کی وجہ سے حالات خراب ہوئے تو غزالہ اپنے خاندان سمیت پشاور آئی تھیں۔

غزالہ کے بعد کئی گلوکاراؤں نے ان کا انداز اپنانے کی کوشش کی لیکن کسی کو بھی ان جیسی شہرت نصیب نہ ہو سکی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی