خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی ایک اور گلوکارہ قتل

ثنا کی موت کی خبر سوشل میڈیا  پر شائع ہوتے ہی نہ صرف عام  صارفین کی ایک بڑی تعداد نے غم و غصے کا اظہار کیا بلکہ سماجی کارکنان اور حقوق نسواں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بھی اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

مقتول گلوکارہ ثنا کا اصل نام ریشما تھا۔ (سوشل میڈیا)

جمعے کے روز سوات میں بھائی کے ہاتھوں قتل ہونے والی ثنا نامی گلوکارہ کی موت نے ایک مرتبہ پھر ماضی میں قتل کی گئی دیگر فنکاروں اور گلوکاروں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ سوات کے ثقافتی مرکز بنڑ سے تعلق رکھنے والی ثنا کا اصل نام ریشما تھا۔ جو پچھلے کچھ عرصے سے رقص اور گلوکاری کے پیشے سے منسلک ہونے کی وجہ سے بھائی کی تنقید کا نشانہ بن چکی تھیں۔ ایف آئی آر کے مطابق ثنا کو جمعرات کی رات ان کے گھر پر بھائی نے چھریوں سے وار کرکے شدید زخمی کر دیا ۔ مضروب گلوکارہ کو بعد میں سیدو شریف ہسپتال پہنچا دیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے عصر کے وقت ہلاک ہو گئیں۔

موت سے قبل ثنا نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد کا تعلق پنجاب سے اور ماں کا تعلق بنڑ کے فنکار خاندان سے تھا۔ دونوں کے درمیان 10 سال قبل طلاق ہوئی تھی ۔ جس کے بعد وہ اپنی ماں کے ساتھ  اور ان کے بھائی والد کے ساتھ پنجاب میں رہا کرتے تھے۔ ثنا نے بتایا کہ ان کے بھائی کا اکثر ان کے ہاں آنا جانا رہتا تھا۔ لیکن اسے ثنا کی گلوکاری اور رقص کا پیشہ اختیار کرنا پسند نہیں تھا۔  لہذا ایک رات جب وہ کسی پروگرام سے گھر واپس آئیں تو ان کے بھائی نے گھر میں داخل ہو کر رات کے اندھیرے میں ان پر پے در پے چھری کے وار کرنے شروع کر دئیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ثنا کی موت کی خبر سوشل میڈیا  پر شائع ہوتے ہی نہ صرف عام  صارفین کی ایک بڑی تعداد نے غم و غصے کا اظہار کیا بلکہ سماجی کارکنان اور حقوق نسواں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بھی اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آخر کیوں ایک کے بعد ایک کر کے خواتین گلوکاروں اور فنکاروں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے؟

سابقہ ممبر صوبائی اسمبلی معرا ج ہمایوں  جو خیبر پختونخوا میں خواتین اور تعلیم سے متعلق مسائل اور تحاریک کی علمبرادار سمجھی جاتی ہیں، انہوں نے ثنا کے قتل کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا  کہ یہ خبر سن کر انھیں انتہائی افسوس ہوا ہے۔ ’میں اس قتل کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتی ہوں۔ یہ لوگ ہمارا اثاثہ ہیں۔ اس طرح کی واردات کا مقصد  دوسرے فنکاروں میں خوف پھیلانا اور ان کی حوصلہ شکنی کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان لوگوں کو پروٹیکشن دے۔ اور چونکہ اس بچی کی عمر 16 سال تھی لہذا چائلڈ پروٹیکشن کمیشن اور خواتین کمیشن دونوں کو اس واقعے کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ مجرم کو کڑی سزا دینی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کی جرات نہ کر سکے۔‘

پشتو گلوکارہ وگمہ  بی بی  نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بڑی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ جب پرائے نہیں مارتے تو اپنے ہی مار دیتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا۔ ’ایک سگے بھائی نے بہن کو قتل کیا ہے ۔ اس سے زیادہ کیا برا ہوگا۔ میں خود جب اس فیلڈ میں آئی تو مجھے اپنے خاندان کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن  بعد میں انھوں نے مجھے معاف کر دیا۔‘ وگمہ بی بی نے بتایا کہ  ان کی فیلڈ میں اکثر دو وجوہات کی بنا پر گلوکاراؤں کو قتل کیا جاتا ہے۔ یا تو خاندان والے اس کے پیشے پر راضی نہیں ہوتے اور یا پھر  پیسوں کے لین دین پر جھگڑا ہو جاتا ہے۔ انہوں نے حکومت سے خواتین فنکاروں اور گلوکاروں کی  مدد اور سیکیورٹی کی درخواست کی۔

اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے۔ تو خیبر پختونخوا میں گلوکاراؤں ، رقاصاؤں اور فنکاراؤں کو قتل کیے جانے کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے۔ جن میں سے کچھ کو نامعلوم لوگوں نے مختلف وجوہات پر قتل کیا  تو کچھ کو گھریلو جھگڑوں کے باعث موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 

سوات میں طالبان کے دور میں بھی خواتین گلوکاروں کو جان سے مار دینے کا حکم تھا۔ اگرچہ اس وقت  سوات کے فنکاروں نے یا تو  اس پیشے کو خیر باد کہہ دیا تھا اور یا بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے لیکن شبانہ نامی رقاصہ اور گلوکارہ اس کی زد میں آ گئیں تھیں ۔ انہیں جون 2009 میں طالبان نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

ماضی میں خاندان کے ہاتھوں قتل کیے جانے والی گلوکاراؤں اور فنکاراؤں کی فہرست:

اپریل 2009 :  پشاور کی ایک ابھرتی گلوکارہ 37 سالہ  ایمن اداس کو اس کے بھائی نے قتل کیا تھا۔  مقتولہ نے اپنی وفات سے قبل کئی بار ذکر کیا تھا کہ ان کے گھر والے گلوکاری کا پیشہ اختیار کرنے پر ناخوش ہیں۔ ایمن اداس کو اپنے پہلے گانے ’زما دمینے نہ توبہ دہ ‘ سے ہی شہرت مل گئی تھی۔

جون 2012:  ہر دلعزیز اور معروف گلوکارہ غزالہ جاوید کو نامعلوم لوگوں نے اپنے والد سمیت پشاور  ڈبگری کے مقام پر  گولیاں مار کر قتل کیا تھا۔ جس کے بعد ان کی والدہ نے ان کے قتل کا دعوی ان کے شوہر پر کیا تھا۔

دسمبر 2013:  38 سالہ گلوکارہ گلنار عرف مسکان کو پشاور میں نامعلوم افراد نے قتل کیا تھا۔ مقتولہ کا تعلق مردان سے تھا اور وہ پشاور میں رہائش پذیر تھیں۔ ان کے قتل کا الزام سابقہ شوہر پر لگایا جاتا رہا ہے۔

اگست 2018 : نوشہرہ کی گلوکارہ ریشم کو ان کے خاوند نے گھریلو تنازعات پر بے دردی سے قتل کیا تھا۔

مئی 2019 :  رقاصہ اور لوکل گلوکارہ مینہ کو سوات میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے قتل کا الزام بھی ان کے شوہر پر ہے۔

فروری 2019: سی ڈی ڈرامہ آرٹسٹ  لبنی عرف گلالئی کو مردان میں بےدردی سے قتل کرکے ان کی لاش کو کھیتوں میں پھینک دیا گیا تھا۔ مقتولہ کی اپنے شوہر سے ناراضگی چل رہی تھی۔ ان کے قتل کے بعد ان کے خاندان والوں نے الزام اس کے شوہر پر لگایا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن