ڈاکٹروں کا مطالبہ مکمل لاک ڈاؤن، 'حکومت اکیلے کچھ نہیں کر سکتی'

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے)کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ اتنی جانیں ضائع ہونے کے باجود ہر طرف معمول کے مطابق بازاروں میں رش ہے، سوشل ڈسٹنسگ یا ماسک اور سینی ٹائزر کا استعمال بھی رسمی ہے، کیا ایسے سمارٹ لاک ڈاؤن سے کرونا کنٹرول ہوگا؟

(اے ایف پی)

گذشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران پاکستان میں کرونا سے 153 ہلاکتیں ہوئیں جو اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ تاحال پاکستان میں تین ہزار تین سو بیاسی لوگ کرونا سے ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 43 ڈاکٹر اور میڈیکل سٹاف بھی شامل ہیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ 14روز کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کیاجائے ورنہ موجودہ صحت کی سہولیات میں جانیں بچانا مشکل ہوجائے گا۔

پی ایم اے کے مطابق 'اتنا بڑا خطرہ ہونے کے باوجود ابھی تک حکومت کوئی یونیفارم پالیسی بنانے میں ناکام رہی، کبھی مکمل لاک ڈاؤن ختم کردیاجاتاہے اور کبھی دوبارہ سمارٹ لاک ڈاؤن شروع کردیاجاتاہے۔'

'حیران کن بات یہ ہے کہ سیاسی اور مذہبی حلقے بھی اس خطرناک وبا پر ایک پیج پر نہیں آسکے، کوئی لاک ڈاؤن کے حق میں ہے تو کوئی خلاف بیان دے کر عوام کو کنفیوز کر رہا ہے۔'

'اب تک تین ہزار سے زائد ڈاکٹر اور عملہ کرونا کا شکار ہوچکا، مکمل لاک ڈاؤن نہ ہوا تو زندگیاں بچانا مشکل ہوجائے گا۔'

پی ایم اے کے مطابق اب تک 43 ڈاکٹر اور میڈیکل سٹاف کی اموات ہوچکی ہیں۔ ہسپتالوں میں جگہ کم پڑتی جارہی ہے ایس او پیز پر بھی عمل درآمد موثر دکھائی نہیں دیتا جب کہ حکومتی ذمہ داروں کا کہناہے کہ 'کرونا سے بچاؤ کا واحد حل ایس اوپیز پر عمل درآمد ہے،لاک ڈاؤن سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوتاجارہاہے۔سمارٹ لاک ڈاؤن کے نتائج چودہ دن بعد دوبارہ ٹیسٹ کرنے سے سامنے آئیں گے۔'

دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرونا ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 16فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

کرونا وائرس پھیلنے کی ممکنہ وجوہات:

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس مسلسل پھیلتا جارہاہے اور آئے روز کرونا کا شکار ہونے والے شہریوں کی تعدادسینکڑوں کے حساب سے بڑھتی جارہی ہے جس پر حکومتی حلقوں کے ساتھ ڈاکٹروں نے بھی تشویش کا اظہار کیاہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے)کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ جن ممالک نے کرونا وائرس پر قابو پایا ہے وہاں ابتدا سے ہی مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا۔ اس کے ساتھ تمام سیاسی جماعتیں اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے متحد ہوکر اسے سنجیدہ لیا۔انہوں نے نہ صرف ایس او پیز پر عمل کیا بلکہ لاک ڈاؤن پر بھی اتفاق ظاہر کیا۔

ان کے مطابق پاکستان میں ایسا نہیں ہوسکا۔ اگر حکومت نے لاک ڈاؤن کی بات کی تو اپوزیشن رہنماؤں نے مخالفت کر دی اور جب اپوزیشن نے مطالبہ کیا تو حکومت نے لاک ڈاؤن کھول دیا۔دوسری جانب عوام اپنے اپنے رہنماوں کے مختلف بیانات پر کنفیوز دکھائی دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ملک بھر میں اب تک تین ہزار سے زائد ڈاکٹر اور میڈیکل سٹاف کرونا ٹیسٹ مثبت آنے پر قرنطینہ ہوگئے جب کہ 43جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ہسپتالوں کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اب کرونا کے مریضوں کو رکھنے کی جگہ کم پڑتی جارہی ہے۔ایسی صورتحال میں جزوی لاک ڈاؤن مسئلہ کا حل نہیں بلکہ مکمل لاک ڈاؤن کر کے ایس او پیز پر سختی سے عمل کرانا ہوگا۔

سب شعبوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کو متحد کر کے حکومت کو یونیفارم پالیسی واضع کراناہوگی ورنہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا آج بھی اتنی جانیں ضائع ہونے کے باجود ہر طرف معمول کے مطابق بازاروں میں رش ہے۔ سوشل ڈسٹنسگ یا ماسک اور سینی ٹائزر کا استعمال بھی رسمی ہے۔ کیا ایسے سمارٹ لاک ڈاؤن سے کرونا کنٹرول ہوسکتاہے؟

پنجاب میں کرونا کمیٹی کے وائس چیئرمین ڈاکٹر اسد اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرونا پر قابو پانے کے لیے ابتدا میں لاک ڈاؤن کیا تو لوگ روزگار کی مشکلات سے دوچار ہوگئے اور کتنے عرصہ تک لاک ڈاؤن کیا جاسکتا ہے؟ انہوں نے خیال ظاہر کیاکہ موجودہ صورتحال میں سمارٹ لاک ڈاؤن تو کردیاگیا لیکن اس کا مقصد لوگوں کو احساس دلانا ہے کہ ایس او پیز پر عمل نہ کرنے سے علاقے بند کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ کا واحد حل پرہیز ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ اپنی جان کی خود بھی حفاظت کریں اور ایس او پیز پر سختی سے عمل کریں۔گھروں سے غیر ضروری باہر نہ نکلیں ماسک پہن کر رکھیں،سینٹی ٹائزر کا استعمال یقینی بنائیں اور سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال رکھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان سے پوچھا گیا کہ سمارٹ لاک ڈاؤن سے کیا فائدہ ہواہے؟انہوں نے کہا کہ اس کے نتائج چودہ دن بعد ٹیسٹ کرنے سے نکلیں گے۔تاہم حکومت اپنی طرف سے محدود وسائل کے باوجود بہترین سہولیات اور انتظامات کو یقینی بنا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت نے ایک اندازے کے مطابق رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اگر سو افراد کے ٹیسٹ ہوئے تو ان میں سے 16کے مثبت آرہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے ہر شہر میں کرونا کے ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح میں آئے روز اضافہ ہورہاہے لیکن معاشی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے جو عالمی سطح کے لحاظ سے احتیاطی تدابیر اپنائی جاسکتی ہیں ان پر عمل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پی ایم اے کے خدشات یقینی طور پر درست ہیں لیکن اس معاملہ میں حکومت اکیلے کچھ نہیں کر سکتی سب کو اپنا کردار اداکرنا لازم ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے بڑے چھوٹے ہسپتالوں میں کرونا سے متاثرہ مریضوں کے لیے سہولیات میں بھی کمی آرہی ہے، تعدادبڑھنے کے ساتھ جگہ کم ہورہی ہے۔

بعض ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز مطلوبہ تعدادمیں نہ ہونے کی شکایات بھی سامنے آرہی ہیں ماہرین صحت کے مطابق ایسے حالات میں یونیفارم پالیسی شدید ناگزیر ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان