سوشانت سنگھ راجپوت ریلوے سٹیشن کی بنچ پر تنہا تھے۔ ان کا دماغ ایسے سن تھا کہ ریل گاڑیوں کا شور اور سیٹیاں بھی اس کی سوچ کو ٹس سے مس کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔
اتنے میں کوئی آتا ہے اس سے بات کرتا ہے اور اسے زندگی کا پاٹھ پڑھاتا ہے جسے سمجھ کر سوشانت اور آگے بڑھنا سیکھ جاتا ہے۔ یہ مناظر ہیں بالی وڈ کی انتہائی مشکل فلم ’دھونی‘ کے۔ فلم کا یہ ’سین‘ دیکھ کر ہر نوجوان زندگی کا سبق سیکھ سکتا ہے لیکن اگر سوشانت کی موت قتل نہیں خودکشی ہے تو اس کا مطلب یہ کہا جاسکتا ہے کہ غالبا وہ سب کچھ بھول گیا تھا یا اسے اتنا مجبور کردیا گیا کہ اس نے سب کچھ بھلا دیا۔۔۔۔
اب جس طرح اپنی زندگی لینے والے پر کوئی الزام دینا غلط ہے بالکل اسی طرح بغیر کسی ثبوت کے اس کی موت کا ذمہ دار کسی اور کو ٹہرانا بھی صحیح نہیں۔
بالی وڈ کے ہونہار اور کامیاب ہیرو سوشانت سنگھ راجپوت کی پراسرار موت کو اب تک خودکشی تصور کیا جا رہا ہے لیکن اگر یہ قتل ہے تو ممکن ہے اس موت کی گتھی کو کبھی بھی سلجھایا نہ جا سکے۔ سوشانت سے کچھ ہی دن پہلے ان کی سابق سیکریٹری نے بھی مبینہ خودکشی کی جس کی وجہ سے ان کی موت پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔
سوشانت کی موت کے بعد سوشل میڈیا پر الزامات اور کہانیوں کی بوچھاڑ ہوگئی۔ کسی نے سوشانت کو بالی وڈ میں نیپوٹزم یعنی اقربا پروری کا شکار کہا کسی نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو اس موت کے ساتھ ملایا اور کسی نے دوسروں کے ساتھ اپنے پرانا سکور سیٹل کرنے کی کوشش کی۔
سوشانت اسی بالی وڈ کا چمکتا ستارہ تھا جہاں کامیابی اور ہٹ ہونے کا کوئی فارمولا نہیں۔ یہاں تو برسوں سے ہر جمعے کو سب کی قسمت بدلتی ہے۔ کون سی فلم ہٹ ہو جائے؟ کون سا گانا ہر کوئی گنگنائے گا؟ کون سا کردار دل میں بس جائے؟ کس مکالمے کی گونج برسوں یاد رہے؟ کون سا نام یاد رہ جائے؟ کون سی فلم کروڑوں کمائے؟ کون سا ہیرو زیادہ پاپولر ہو جائے؟
یہ نسخے تو راج کپور، یش چوپڑا ور راج کمار ہیرانی کو بھی معلوم نہیں۔اگر ایسا ہوتا تو کیا راجیش کھنہ، امیتابھ اور شاہ رخ خان کسی اور کو نمبر ون کا تاج پہننے دیتے؟ کیا لمحے فلاپ اور مہرہ سپر ہٹ ہوتی؟ کیا ایک ہی کہانی والی جب جب پھول کھلے، پیار جھکتا نہیں، راجہ ہندوستانی اور چلتے چلتے کامیاب ہوتی؟
سوشانت بالکل باہر سے آیا تھا لیکن اس وقت بھی ایوشمان کھرانہ ’اندھا دھن‘ کامیابی حاصل کر رہا ہے اور راج کمار راؤ نے بھی کامیابی اور پذیرائی میں ’نیوٹن‘ کا ٹائٹل پایا ہے۔ ان کی بڑی اور کامیاب فلموں کی تعداد اور اوسط تو ان دونوں سے بھی زیادہ تھی۔
مرحوم عرفان خان جنہوں نے ہالی وڈ تک بالی وڈ کا نام روشن کیا ان جیسی جدوجہدتو سب کے لیے مثال ہے۔ یہ سچ ہے کہ کمل ہاسن، رجنی کانت، مموتھی اور موہن لال جیسے ساوتھ کے ہیروز کو بالی وڈ میں وہ مقام یا کامیابی نہیں ملی لیکن یہی سلوک بالکل راجیش کھنہ، امیتابھ اور شاہ رخ خان کے لیے تیلگو، تامل یا ملیالم انڈسٹری میں ہوا۔
سوشانت کو نیپوٹزم کا شکار تک کہا گیا۔ وہی سوشانت جس کا پہلا ڈرامہ ’کس دیش میں رہتا ہے میرا دل‘ آج سے 12 سال پہلے ایکتا کپور نے پروڈیوس کیا۔ بالی وڈ میں کچھ سالوں کے دوران سب سے بڑی سٹار کِڈ سارہ علی خان کا کیریئر کسی اور کے ساتھ نہیں سوشانت کے ساتھ ہی شروع ہوا۔سوشانت کی آخری میگا ہٹ فلم چھچھورے کی ہیروئن بھی کوئی اور نہیں شاردھا کپور ہیں۔
بالی وڈ میں نیپوٹزم کو اچانک ہوا دی تھی۔ کنگنا راناوت نے جو خود مکیش بھٹ کی فلم ’گینگسٹر‘ سے لانچ ہوئیں جی ہاں! وہی مکیش بھٹ جو مہیش بھٹ کے بھائی اور عالیہ بھٹ کے چچا ہیں۔
اب عالیہ بھٹ اور پوجا بھٹ کی کیریر کو ہی لیجئے۔ دونوں کے کیریئر میں اتنا ہی فرق ہے جتنا سلمان خان اور ارباز خان یا عامر خان اور فیصل خان کی کامیابی میں۔ ایسا ہی کچھ فرق امیتابھ اور بیٹے ابھیشیک کے درمیان بھی تو ہے۔
بالی وڈ کے ایک وقت کے سب سے بڑے بینر راج کپور فلمز کی تمام فلموں کے ہیرو صرف کپورز ہی ہوتے تھے لیکن کرشمہ کپور کو کس نے لانچ کیا؟ یہاں تک کہ فلمی تاریخ کے سب سے روشن اور بڑے سٹار کڈ رنبیر کپور نے بھی سالوں محنت ’بلیک‘ کی اور اس کے بعد انہیں اسی محنت کو دیکھنے والے نے ’سانوریا‘ بنایا۔
آج کی سونم کپور، سوناکشی اور ارجن کپور کو تو آپ نے دیکھا لیکن کیا آپ نے ان سب کی فلموں میں آنے سے پہلے کی محنت اور ’ٹرانسفورمیشن‘ دیکھی ہے۔ شاہ رخ خان اور اکشے کمار تو باہر سے آئے اور محنت، قسمت اور عوام کی پذیرائی سے سٹار بنے لیکن کیا عامر خان اور سلمان خان نے اپنے کیریئر میں اتنی ہی محنت نہیں کی؟
آج ہمیں رشی کپور، سنی دیول، ابھی شیک، سونم کپور نظر آتے ہیں لیکن ان کے پیچھے راج کپور، دھرمندر، امیتابھ اور انیل کپور کی محنت اور کامیابی نظر نہیں آتی۔ کیا کوئی بھی سمجھ دار انسان کشور کمار کی لازوال گلوکاری کا سہرا اشوک کمار کو دے سکتا ہے؟ کشور کمار تو اداکاری میں بری طرح ناکام ہوئے اور جب گانا گایا تو بس سب کو اپنا ہی بنالیا۔
بالی وڈ میں کتنے بڑے بڑے سپر سٹارز کے بچے یا رشتے دار ہیں جنہیں ایک دو یا تین بار چانس تو ملا لیکن ان کے نام اور چہروں کو آج کوئی پہچانتا بھی نہیں۔ ان ناکام سٹار کڈز کی تعداد کامیاب سٹار کڈز سے بہت زیادہ ہے۔
یہ باتیں اگر ہم جانتے ہیں تو سوشانت کو بھی معلوم ہوں گی۔ وہ تو نہ صرف بالی وڈ کی بستی کا باسی تھا بلکہ ایک روشن ستارہ بھی جس کی نظر چاند پر ہو۔ اسے ساتھیوں کی بےاعتنائی نے کیوں پریشان کیا ہوگا؟ کیمپس اور فیورٹ ازم کہاں نہیں ہوتا؟ ہر گھر میں والدین کا بھی فیورٹ کوئی ایک ہی تو ہوتا ہے؟ ہالی وڈ، بالی وڈ یا ہماری اپنی انڈسٹری سب جگہ کیمپس ہیں ٹیم ہیں جو ڈائریکٹر، رائٹر، پروڈیوسر یا سپر سٹار جس ہیرو، ہیروئن یا ٹیلنٹ کے ساتھ کام آسان محسوس کرتا ہے اسی کو بار بار لیتا ہے۔
لیکن جب وقت، قسمت یا عوام کی پسند بدلتی ہے تو کوئی ایک بدلتا ہے یا دونوں غائب ہو جاتے ہیں۔ پرویز ملک کے ساتھ پہلے وحید مراد بعد میں ندیم ساتھ ہوں یا پھر وحید مراد پر احمد رشدی کی آواز، عاصم رضا کی فلموں میں ماہرہ خان یا شہریار ہوں یا پھر ہمایوں سعید کی فلموں کے ڈائریکٹر ندیم بیگ، اپنی فلموں میں کردار کو اداکار پر اہم قرار دینے والے سنجے لیلے بھنسالی کی پچھلی تینوں فلموں میں رنویر سنگھ ہی نظر آئے۔ دوسری طرف راجو کمار ہیرانی نے سنجو کے لیے عامر خان کو بھی ٹاٹا کہہ دیا ایسا ہی کچھ شاہ رخ کے ساتھ کرن جوہر اور فرح خان جیسے دوست بھی کرچکے ہیں اور گوندا کے ساتھ ڈیوڈ اور سلمان کے ساتھ سنجے لیلےٰ نے کیا۔
کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ سوشانت کی ’ڈرائیو‘ چونکہ ویب پر نہیں چلی اس لیے ان سے فلمیں چھن گئیں اور اس لیے انہوں نے یہ قدم اٹھایا۔ ایک تو یہ فلم سینیما گھروں کے لیے تھی ہی نہیں اور یہ کوئی ایسی ناکامی ہی نہیں تھی ابھی تو سوشانت نے کامیابی ہی دیکھی تھی انہیں راجیش کھنہ، امیتابھ، شاہ رخ خان، سلمان خان، ابھی شیک، رنبیر کپور اور سنجے دت جیسی مسلسل کئی فلاپ فلموں کا سامنا کرنا ہی نہیں پڑا۔
بالی وڈ میں 15 سے زیادہ فلمیں کرنے والے باہر کے ہی انوراگ کشیپ کے بھائی ابھینو کشیپ جنہوں نے پہلی والی دبنگ ڈائریکٹ کی ہے وہ بھی سوشانت کی موت کے بعد سامنے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے کیریئر کو تباہ کرنے کا الزام سلمان خان کی پورے خاندان پر لگایا ہے اور اسے سوشانت کی موت سے بھی’کنیکٹ‘ کیا ہے۔ سلمان خان پر یہ الزام وویک اوبرائے بھی لگا چکے ہیں اور بعد میں معافی مانگ چکے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وویک اوبرائے کے الزامات کے وقت وویک کے پاس بڑے بینر کی فلمیں تھی اور سلمان ناکامی کا شکار تھے وہ تو شاہ رخ خان سے سلمان کی لڑائی کے بعد سلمان ایسے ’وانٹیڈ‘ ہوئے کہ ان کی ایک کے بعد دوسری پھرت یسری ہر فلم سو سو کروڑ کی ثابت ہوئی۔ دوسری طرف شاہ رخ خان کا کیئریر ’زیرو‘ پر آ کر ٹک گیا۔ شاہ رخ خان اور سلمان کی آج پھر پہلے سے گہری دوستی ہے اور دونوں نے اپنی لڑائی کے وقت بھی کبھی ایک دوسرے کے خلاف کڑوا بیان نہیں دیا۔
اب ابھینو کشیپ نے دبنگ کے بعد رنبیر کپور کے ساتھ ’بےشرم‘ بنائی، جس میں پہلی بار رنبیر کے ساتھ رشی کپور اور نیتو سنگھ بھی تھے۔ حالانکہ اس وقت ’راک سٹار‘ کا نہ صرف ستارہ عروج پر تھا بلکہ انہوں نے اپنے کیریئر کی سب سے بڑی ہٹ فلم ’یہ جوانی ہے دیوانی‘ بھی تازہ تازہ دی تھی لیکن ’بے شرم‘ سے وہ بھی ‘تماشا’ بن گئے۔ اب بالی وڈ جہاں کبھی بہت بری فلمیں بھی سپر ہٹ ہوجاتی ہیں ’بے شرم‘ جیسی فلم بری طرح فلاپ ہوئیں۔ اور ابھینو کشیپ کا کیریئر ختم ہوگیا اسی طرح جیسے کئی ایک ایک یا دو دو فلموں میں آنے کے بعد کچھ سپر سٹار کے کئی بچوں کا ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کنگنا جو دوسروں پر پر روز ہی نشانہ لگاتی ہیں پہلے ایک سٹار کڈ یعنی شیکھر سمن کے بیٹے کے ساتھ دل لگا چکی ہیں اور بعد میں ان کا دل ریتھک روشن سے لگا تھا اگر آپ کو یاد ہو کنگنا کی رازٹو اور ریتھک روشن کی ہوم پروڈکشنز کائٹ اور کرش تھری۔۔۔ اب اگر کنگنا کا دل بھی کسی سٹار کڈ سے ہی بار بار ملتا ہے تو اس کو کیا کہا جائے۔
راز ٹو کے ہیرو عمران ہاشمی جب تک ہٹ پر ہٹ دیتے تھے ان پر مہیش بھٹ کے رشتے دار ہونے کا ’تمغہ‘ لگتا تھا اب ان کی فلاپ فلموں کی کوئی گنتی نہیں تو اقربا پروری کی بازگشت میں ان کے نام کوئی الزام نہیں آتا۔
اسی بالی وڈ میں بوبی دیول بھی گھوم رہے ہیں جن کے بھائی سنی دیول اور پاپا دھرم جی ہیں۔ بوبی کو شروع میں کامیابی کے بعد بڑی بڑی فلمیں ملیں لیکن بعد میں وہ جب فلاپ ہونا شروع ہوئے تو سکرین میں ہیروز کی ریس سے غائب ہی ہوگئے ہیں۔
اب پتا نہیں صحیح ہے یا غلط لیکن دنیا کا دستور تو یہی ہے کہ ماں باپ اپنی کمائی ہوئی دولت کسی اور کو نہیں اپنی اولاد کو دیتا ہے۔ یہی نہیں اگر والدین ڈاکٹر، انجینئرز، بزنس مین یا فلم سٹارہو تو اپنے والد کو دیکھ کر بیشتر بیٹے اور بیٹیاں بھی اسی فیلڈ میں جانا چاہتے ہیں اور اس میں انہیں آسانی بھی ہوتی ہے۔
کرن جوہر تو ہیرو بھی بن سکتے تھے لیکن نہیں بنے انہیں پہلا مرکزی کردار انوراگ کشیپ نے دیا تو کیا اس کی وجہ کرن جوہرکا بینر تھا۔ یہ بھی الگ کہانی ہے کہ اتنے پیسے سے بنی ہوئی فلم ’بمبئے ویلوٹ‘ پردے پر بالکل نہیں چلی اگر یہ لوگ اتنے طاقتور ہوتے تو کیا ایسا ہوتا۔
کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں ہے کہ لتا اور آشا نے اپنے دور میں کسی اور ’فی میل‘ سنگر کو آگے نہیں آنے دیا لیکن اس کی یہ بھی تو وجہ ہے کہ یہ دونوں کبھی پیچھے نہیں رہی اور کام سے بھاگی نہیں۔ ایسا ہی کچھ ہماری ملکہ ترنم نور جہاں کی داستان ہے۔ اگر نیپوٹزم ہی فلم انڈسٹری میں کامیابی کی سو فیصد ضمانت ہوتا تو نور جہاں اور صبیحہ خانم جن کے خاوند بھی فلم انڈسٹری میں کنگ تھے کہ تمام بچے اور پھر پوتے پوتیاں بھی انڈسٹری میں اس وقت جمے ہوئے ہوتے۔
دوسرے شعبے یا انڈسٹری کی طرح بالی وڈ میں بھی کنگ اور ’کنگ میکرز‘ ہوتے ہیں لیکن دلیپ کمار، راج کپور، دیو آنند، راجندر کمار، شمی کپور، ششی کپور اور دھرمندر کے ہوتے ہوئے بھی اتفاق سے باہرسے ہی آئے راجیش کھنہ کو ہی سپر سٹار کی ’آرادھنا‘ ملی لیکن ان کا یہ آنند چار سال ہی برقرار رہا کیونکہ ان کی زندگی میں فلم ’نمک حرام‘ امیتابھ کو لے آئی جس کی ’زنجیر‘ نے ایسے ’شعلے‘ برسائے کہ دس سال تک سب بگ بی ہی کہ ’نمک حلال‘ رہے۔
اب اگر صرف سوچنے بیٹھیں تو امیتابھ کے سب سے بڑے حریف ونود کھنہ کو اس وقت کس نے امریکہ بھیجا تھا یاونود کھنہ کے سامنے امیتابھ کی شخصیت زیادہ کیسے چمکی؟ اس میں ہمیں امیتابھ کی کوئی سازش نظر نہیں آئے گی۔ امیتابھ کے بعد انیل کپور،سنجے دت، جیکی شیروف اور سنی دیول شہزادے رہے لیکن بادشاہ کا تاج شاہ رخ خان کی قسمت میں آیا جس کا اس انڈسٹری میں کوئی دور دور تک رشتے دار نہیں تھا۔
اب قصور کس کا تھا کہ دیکھنے والوں کو اس ’بازیگر‘ کے چمت کار سے ’ڈر‘ نہیں لگا اور وہ سب اسی کے’فین‘ ہوگئے لیکن اب یہی ‘خان’ باکس آفس پر ’زیرو‘ ہے۔اس وقت لکشمی اکشے کمار پر مہربان ہے جن کا بھی کوئی رشتے دار فلم انڈسٹری میں نہیں تھا۔
سوشانت کی موت کے بعد یہ بھی صدا آئی کہ انہیں ایوارڈ نہ ملنے کا غم تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ فلم فیئر یا زی سنے جیسے درجنوں ایوارڈز اب صرف پیسہ کمانے کے لیے ہوتے ہیں توکیا سوشانت یہ بات نہیں جانتے ہوں گے۔ کتنے ہیں جنہیں آج تک بہترین اداکار کو کوئی ایوارڈ نہیں ملا دھر مندر سے لے کر سلمان خان آپ گن لیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ شیکھر کپور کے ساتھ کام کرنے کی سوشانت کو سزا ملی۔شیکھر کپورکی پانی وہ فلم ہے جو غالبا شروع بھی نہیں ہوئی۔ اب شیکھر کپور کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں تو سب جانتے ہیں کہ وہ فلمیں مکمل کرنے کے معاملے میں بالکل بھی ’معصوم‘ نہیں ہیں ان کی اکثر فلمیں ’مسٹر انڈیا‘ ثابت ہوئیں یا تو کسی ’ٹائم مشین‘ کے لوپ کی وجہ سے پھنس گئی یا انہیں کسی اور نے مکمل کرایا۔ مسٹر انڈیا کے لیے بھی اگر انیل کپور کے بڑے بھائی اپنی ساری بونی نہیں لگاتے تو شاید وہ فلم بھی ادھوری ہی رہتی۔
فلم انڈسٹری میں کتنی ہی فلمیں ادھوری رہ جاتی ہیں یا فلموں کی کہانی کو بے کار سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ امیتابھ کو کسی اور کی زنجیر ملی، شاہ رخ خان نے کسی اور کے ٹھکرائے ہوئے کردار بازیگر، دیوانہ، دل والے دلہنیا، ڈر اور چک دے میں ادا کیے۔ کبھی ذہن نہیں صحت بھی دھوکا دے سکتی ہے، شاہ رخ اگر کمر کی تکلیف کی وجہ سے منا بھائی سے انکار نہیں کرتے تو تھری ایڈیٹس اور پی کے میں عامر خان جگہ شاید وہی ہوتے۔
آج شاہ رخ کی وجہ سے سلمان خان کا ’ٹائیگر زندہ ہے‘۔ یہاں تک کہ بالی وڈ کا سب سے بڑاکردار ’گبر‘ امجد خان کی جھولی میں اس لئے گرا کیونکہ دوسروں نے اسے ٹھکرا دیا تھا۔
اب گبر کو گبر اور شعلے کو شعلے کس نے بنایا ظاہر ہے دیکھنے والوں یا پھر قسمت نے کیونکہ فلم تو پہلے دن ہی ریجکٹ ہوگئی تھی اور سب مایوس بھی لیکن اس کے بعد جو دن چڑھا وہ سب نے دیکھا۔ کس نے سوچا تھا کہ گبر سب کو کھا جائے گا۔ اب قسمت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ ’میرا گاوں میرادیش‘ کے ’جبر سنگھ‘ کو اب کون جانتا ہے جو گبر سے پہلے کامیاب ہو کر بھی گبر سنگھ کی اینٹری کے بعد گمنام ہوچکا ہے۔
خود سوشانت نے پہلی ہی اپیئرنس میں اس فلم کی حد تک راج کمار راو اور امیت سادھ جیسے سپر ٹیلنٹڈ جیسے ہیروز کو ’کائی پو چے‘ کر دیا تھا۔فلم سپرہٹ ہوئی اور اس کے ساتھ ہی بالی وڈ کے سب سے بڑے بینر ’یش راج‘ کے ساتھ ان کا ’شدھ دیسی رومانس‘ شروع ہوا جس نے انہیں ایک اور فلم میں ’ٹائٹل‘ رول دیا۔
پھر پی کے کے پاکستانی ’سرفراز‘ نے انہیں امر کردیا یہی نہیں سوشانت قسمت کے اتنے بڑے دھنی نکلے کہ انہیں دنیاکے کامیاب ترین کرکٹرز میں سے ایک ‘دھونی’ کا ٹائٹل رول ادا کرنے کو ملا۔یہاں سوشانت کی محنت اور ٹیلنٹ کا امتحان تھا کیونکہ دھونی کوئی ماضی کی کہانی نہیں بلکہ حال کاکما ل تھا۔ دھونی کا اٹھنا بیٹھنا بولناہنسنا کھیلنا جیتنا سب، سب کی آنکھوں میں بستا تھا۔اِس دور میں فلم کے دیوانوں کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں سنجو اور دھونی جیسی فلمیں دیکھنے کو ملی۔
سنجو میں اگر رنبیر کپور کا سنجے دت بننا ’کے ٹو‘ تھا تو سوشانت کا دھونی بن کر کامیاب ہونا ‘ماونٹ ایورسٹ‘۔اداکار کا اداکاری کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن اداکار کا کھیل دکھانا اس سے بھی مشکل۔ دونوں فلمیں کلاسک ہیں اور دونوں میں رنبیر اور سوشانت بھی۔
دھونی کا کرکٹ میں پہلے جگہ بنانا اور پھر نام بنانا یقینا سوشانت کے سفر سے بظاہر کہیں زیادہ کٹھن بھی ہوگا اور اس بات کو سوشانت کے سوا کون زیادہ بہتر جان سکتا ہے۔ اس لیے یہ یقین کرنا کہ سوشانت اپنے کیریئر کے حوالے سے ناامید تھا مشکل ہی نہیں نا ممکن لگتا ہے۔
سلمان ہو یا شارخ خان یا پھر کوئی اور سب کا اپنا مزاج اپنی پسند ہوتی ہے۔ اب دیو آنند کو اکیلے ہیرو آنا پسند تھا تو تھا۔ راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن کو اپنے لیے کشور کمار آواز پسند تھی لیکن کشور کمار نے دونوں سپر سٹارز کو اپنے سامنے جھکایا۔ اسی طرح محمد رفیع اور لتا کے معاملے میں ستارے رفیع صاحب کے ساتھ نہیں رہے۔
سلمان خان کا جس سے پنگا ہوتو ہے وہ تو سب کے سامنے ہوتا ہے اریجت سنگھ جن کا تعلق بنگال سے ہے سلمان کی گڈ بک میں نہیں دونوں میں کیا ہوا تھا پوری دنیا نے سالوں پہلے دیکھا تھا پھر سلمان نے انہیں اپنی فلموں کے لیے گانے نہیں دیا لیکن کسی اور کو ان کے ساتھ کام کرنے کو روکا بھی نہیں اریجت اب سے نہیں چند سالوں سے بالی وڈ کا گلوکار نمبر ون ہے ہر ایوارڈ اریجت کو ملتا ہے۔
ہر تقریب میں وہ نظر آتے ہیں ہر کسی کے لیے وہ گانا گاتے ہیں۔ اب گلوکاری کی بات ہو تو میوزک کا ٹرینڈ بالکل بدل چکا ہے۔کون جانتا تھا کہ میلوڈی والے بالی وڈ میں صرف ر ی مکس کا راج ہوگا۔ یہاں تواریجیت سے پہلے سونو نگم اس سے پہلے ادت نارائن اس سے پہلے کمار سانو اس سے پہلے محمد عزیز اس سے پہلے کشور کمار اس سے پہلے محمد رفیع صاحب کا راج تھا۔اب ادت نارائن کے بیٹے کو بچپن میں پذیرائی ملی مکیش صاحب کے بیٹے کو زیادہ کامیابی نہیں ملی امیت کمار کشور کمار کا بیٹا ہونے اور کئی ہیروز کی آواز بننے کے باوجود کامیابی نہیں سمیٹ سکے۔
کامیابی تو یش جوہر یعنی کرن جوہر کے پاپا کو بھی سالوں نہیں ملی۔ اِس پروڈیوسر یش کی قسمت اُس ڈائریکٹر یش چوپڑا کی طرح نہیں تھی اب اس کا سہرا بھی صرف یش چوپڑا کے بڑے بھائی بی آر چوپڑا کو دینا بالکل غلط ہوگا کیونکہ بی آر چوپڑا کا اپنا بیٹا روی چوپڑا انڈسٹری میں کامیاب نہیں ہوا۔خیر کرن جوہر کے پاپا کی بطور پروڈیوسر صرف پہلی فلم’دوستانہ’ ہٹ ہوئی اس کے بعد دلیپ کمار کے ساتھ دنیا امیتابھ بچن کے ساتھ اگنی پتھ سنجے دت اور سری دیوی کے ساتھ گمراہ اور شاہ رخ خان کے ساتھ ڈپلی کیٹ سمیت مسلسل پانچ فلمیں فلاپ ہوئیں۔
اسی کرن جوہر نے اپنی پہلی فلم کی کہانی بنائی تو شاہ رخ خان اور کاجول نے ہاں کہاں لیکن ٹوئنکل کھنہ اور چندرا چور سنگھ نے رانی اور سلمان خان والے کردار ریجیکٹ کردیے۔ چندرا چور سنگھ کے انکار کی کہانی جب سامنے آئی تو کسی نے یقین نہیں کیا لیکن آج چندرا چور سنگھ نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے کچھ کچھ ہوتا ہے کے لیے گھر آئے کرن جوہر کو منع کردیا تھا۔
ماچس اور تیرے میرے سپنے کے چندرا چور کو اس وقت کا سپر سٹار کہا گیا لیکن انہیں اپنی فلموں نے وہ مقبولیت نہیں ملی جو عاشقی والے راہول رائے کو ملی۔ اب راہول رائے کی بات ہوجائے جو انڈسٹری سے باہر کا آدمی تھا لیکن اسے جو مقبولیت صرف ایک فلم نے دی کیا وہ کسی اور کو ملی۔ جس لڑکے کو دیکھو’راہول رائے کی طرح ہیئر سٹائل۔
یقینا امیتابھ اور سادھنا کے ہیئر سٹائل سے بھی زیادہ مقبول راہول رائے کے بال تھے لیکن بس راہول کی قسمت میں ایک فلم اور کچھ گانوں کی سدابہار مقبولیت تھی بعد میں انھوں نے کئی فلمیں کی لیکن کسی دوسری فلم کا نام بھی کسی کو شاید ہی یاد ہو۔
اسی بالی وڈ میں ‘میں نے پیار کیا’کی بھاگیہ شری اور ‘بوبی’ میں ڈمپل کپاڈیہ کو فلم انڈسٹری کے بڑے باپ کے ہیروز بننے والے بیٹوں کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ فینز اور فلمیں بنانے والے ملے۔ دونوں نے من مانی کی ایک نے اس وقت کے سب سے بڑے سٹار راجیش کھنہ سے شادی کی دوسری نے اپنے ‘پتی’ کو ہیرو بنا کر دکھایا لیکن قسمت نے دونوں کو ٹھکرایا اور وہی رشی کپور اور سلمان خان جنھیں کوئی پوچھتا نہیں تھا دونوں نے ناکامی دیکھنے کے بعد سپر ہٹ فلموں کی برسات کر دی۔
جب ہر کوئی اپنی اپنی ہانک رہا ہے تو اس بات کا بھی امکان ہے کہ اب سوشانت کو نشانہ بنانا شروع ک ردیا جائے۔ سوشانت کو بھی تو فلموں میں مرنے اور اپنے فینز کو اداس کرنے کی بری عادت تھی۔
پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے جڑ کر بھی کتنے ہی دور کیوں نہ ہو لیکن عوام ایک دوسرے سے اور ایک دوسرے کے کھلاڑیوں، سٹارز، میوزک اور شوبز سے بہت محبت کرتی ہے اور سوشانت تو پاکستانی ہے جسے بھارتی فلم بینوں نے سرفراز کے کردار میں بہت محبت دی۔ سرفراز تو کسی کو دھوکہ نہیں دیتا لیکن یہ زندگی بےوفا ہے اس نے سوشانت کو بھی ٹھکرا دیا۔
اگر سرفراز کی موت خود کشی ہے اور واقعی اس نے یہ قدم کسی بھی اپنی ٹینشن یا دوسرے کے ایکشن کی وجہ سے اٹھایا ہے تو کاش وہ اپنی فلم ’چھچھورے‘ ہی اس دن دیکھ لیتا یا پھر کم سے کم اس فلم کا گانا ہی سن لیتا جس میں ایک نہیں دو دو سوشانت تھے اور گانے کے بول تھے ‘چنتا کر کے کیا پائے گا، مرنے سے پہلے مر جائے گا۔ سُن یہ گانا کام آئے گا۔ بس کھا لے پی لے جی لے کیونکہ زندگی ہے شارٹ۔ ارے رے پگلے فکر ناٹ’۔۔۔۔
چھچورے بھی تو ساجد نڈیاڈ والا کی فلم تھی جو کرن جوہر کی ہی طرح کئی فلموں کے پروڈیوسر اور سلمان خان کے پکے دوست ہیں اور ڈائریکٹر دنگل والے نتیش تیواڑی جو مدھیہ پردیش سے تعلق رکھتے ہیں انہی نتیش کی شروع کی فلمیں کسی اور نے نہیں سلمان خان اور عامر خان نے پروڈیوس کی پھر وہی سلمان اور عامر۔۔۔ جن کے پاپا بھی اسی انڈسٹری کا حصہ تھے لیکن ان دونوں کے سپر سٹار بننے کی گارنٹی نہیں۔
بھئی یہ کوئی گارنٹی ہوتی تو یہاں دیکھ لیں سلطان راہی، مصطفی قریشی، منور ظریف اورجاوید شیخ کے بیٹوں چانس ملا لیکن کامیابی غالبا ایک فیصد بھی نہیں لیکن ان کے مقابلے میں افضل خان ریمبو کون تھا؟ کہاں سے آیا؟ ایک ڈرامے میں وہ بھی اسلام آباد جیسے نسبتا کمزور ٹی وی سٹیشن کے لیکن اب اس کی محنت اور قسمت کہ فلموں میں بھی’ہیرو’بنا، بیگم بھی سٹار ملی اور ساس سپر سٹار۔ جان ریمبو کیا کہانی بھی نرالی ہے اس نے ڈرامے ’گیسٹ ہاوس‘ میں اتنی دعا کی کہ اسے ‘جھاڑو’ اٹھا کر وہ کامیابی ملی جو دوسروں کو اس وقت ‘گنڈاسہ’ اٹھا کر بھی نہیں ملتی تھی۔
اب اتنے سالوں بعد یہی افضل خان ‘ڈونکی کنگ’ بنا اور تاریخ رقم کردیا۔ یعنی دو ایسے کردار جنھیں کوئی اسکرین پر ادا کرنا نہیں چاہے گا یعنی ‘سوئپر’ اور ‘گدھے’ کا وہ افضل خان نے نبھائے اور دو نسلوں کے لیے فیورٹ بن گئے اس کی ایک مثال امیتابھ بچن ہیں جو ایک نسل کے لیے اینگری ینگ مین اور دوسری کے لیے ‘کروڑ پتی’ہیں۔
یہی کروڑوں کی باتیں اور شوبز کی چکا چوند ہے کہ بالی وڈ انڈسٹری کی سیاست اور انڈر ورلڈ سے بھی بڑی دوستی رہی ہے کبھی کوئی کسی کی مدد مانگتا ہے تو کبھی کوئی کسی سے دشمنی نکالتا ہے۔ کاسٹنگ کاوچ یا می ٹو کے بڑے اسکینڈل آئے جن میں سے کچھ جھوٹے کچھ سچے ثابت ہوئے کچھ صرف الزامات۔
کیا اسی بالی وڈ کے نیپو ٹزم سمیت کڑوے سچ فلم پیج تھری، فیشن، ہیروئن، زیرو اور لک بائی چانس سمیت کئی فلموں میں خود فلم والوں نے نہیں دکھائے۔سلمان خان کا ایکسڈنٹ کیس کئی فلموں کی کہانی بنا لیکن ان فلموں کو بننے سے کسی نے نہیں روکا۔
روکا تو کسی نے دیویا بھارتی کو بھی نہیں تھا جو ایک دم سے سب بڑی ہیروئنز کے لیے خطرہ بنی اور مسلمان پروڈیوسر ساجد نڈیاڈ والا کی بیگم بھی لیکن ان کی مبینہ خودکشی کے بعد ان کی نامکمل فلمیں دوسری ہیروئنز کے لیے سپرہٹ ہوئیں جن میں سری دیوی کی لاڈلا، روینہ کے لیے مہرہ اور تبو کے لیے وجے پتھ اہم ہے صرف جوہی چاولہ کی قسمت خراب نکلی کہ ان کی فلم ‘کرتویہ’ ناکام ہوئی۔
اب دیویا کے قتل کے پیچھے ملزم یا خود کشی کے پیچھے لوگ تو بہت سارے نکل آسکتے ہیں اور اگر سوشل میڈیا اس وقت ہوتا تو سب کے ایک دوسرے کے کپڑے اتار رہے ہوتے اسی طرح جیسے آج کل سونو نگم اور بھوشن کمار آمنے سامنے ہیں جو کل ایک دوسرے کے دوست تھے۔
ایک بار پھر انڈر ورلڈ کی بازگشت شروع ہوگئی ہے جو ایک وقت میں بالی وڈ پر بھی راج کرتا تھا ‘ونس اپاون اے ٹائم ان بمبئے’ ہو یا ‘کمپنی’ یا پھر ‘ستیہ’ہر انڈر ورلڈ فلم میں ‘ڈان’ اور فلم انڈسٹری کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ بال ٹھاکرے کی موجودگی اور بعد شیو سینا سے کون پنگا لیتا ہے کیونکہ سب سے بڑا سرکٹ تو مہاراشٹر ا کا ہی ہے اور پھر ان کے آشیرواد سے فلمیں بھی ملتی تھی اور سینما کے باہر احتجاج بھی نہیں ہوتا تھا۔
اس وقت کے چہرے آپ کو صرف شو بز سٹارز کے ساتھ ہی نہیں بلکہ کرکٹ سٹارز کے ساتھ بھی نظر آتے تھے۔۔اب وقت بدل گیا انڈر ورلڈ کا طریقہ شاید بدل گیا فلمیں بنانا کیونکہ گھاٹے کا سودا نہیں رہا تو بلیک منی کو نقصان کرا کر وائٹ کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہوا۔ اس وقت تو 99 فیصد فلمیں اپنی لاگت سے ڈبل سے زیادہ کا منافع کماتی ہیں دوسری طرف کھیل کا پانسہ بھی پلٹ گیا اور کرکٹ بالی وڈ سے پیسے اور چکا چوند میں بہت اوپر آگئی۔
کبھی کے جنٹل مین گیم کرکٹ میں پیسہ اور شہرت کے ساتھ گند بھی بڑی آئی۔میچ فکسنگ اسکینڈلز نے بڑے بڑے ممالک کو ہلایا بعد میں مافیا نے اسپاٹ فکسنگ کا طریقہ نکالا جس کی زد میں عامر، آصف اور سلمان بٹ بری طرح آئے۔ پتا نہیں کتنے اور اس ’کھیل‘ میں ملوث تھے۔ لیکن اب پکڑے یہ گئے تو کیا یہ اپنا قصور دوسروں پر ڈالتے رہیں گے۔
آصف جیسا ٹیلنٹ تو دنیا بھر میں برسوں بعد سامنے آتا ہے جس طرح یہ ٹیلنٹ سزا پانے کے بعد ضائع ہوا وہ سب نے دیکھا لیکن اپنی ’کم عمری’ کی وجہ سے عامر کو موقع ملا اور وہ ’ولن’ بننے کے سات سال بعد ’ہیرو’ بن کر واپس آیا اور سلمان بٹ واپسی کے بعد بھی ادھر ادھر ڈولتا رہا۔ اب تینوں کا جرم ایک لیکن بعد کے نتائج الگ الگ اب اسمیں کتنے ‘فیکٹرز’ ہیں آپ خود اندازہ لگائیں۔
اندازہ توبوم بوم آفریدی کو بھی نہیں تھا کہ دنیا بھر میں سپر سٹار کا درجہ پائیں گے۔شاہد آفریدی نے اپنے بڑے بھائی کی وجہ سے کرکٹ کھیلنی شروع کی جو شاید ملک بھرکے ٹاپ 200 کھلاڑیوں میں بھی شامل نہیں تھے۔شاہدآفریدی کا جیسا بھی ٹیلنٹ تھا انڈر 19میں سلیکٹ ہوئے ویسٹ انڈیز گئے تو پاکستانی ٹیم کے اسپنر مشتاق احمد زخمی ہوگئے۔ آفریدی کو ہنگامی طور پر کینیا میں طلب کیا گیا اور اس کے بعد جو ہوا وہ سب جانتے ہیں۔
بوم بوم کا ریکارڈ کسی کو بھی بتانے کی ضرورت نہیں لیکن جب یہی بوم بوم سپر سٹار تھا اس کے چھوٹے بھائی نے کرکٹ کھیلنی شروع کی اور اسے ‘کچھ’ موقع بھی ملا لیکن ان کا نام کیا کوئی جانتا ہے۔۔۔آفریدی کے چھوٹے بھائی نے تو چھوٹے لیول کی کرکٹ کھیلی لیکن جنید ضیاء پر اپنے والد کی وجہ سے ٹیم میں آنے کا الزام لگا اور اس کے بعد ان کی کارکردگی سے یہ بات کافی حد تک سچ بھی ثابت ہوئی۔
تو سوشانت، دھونی، آفریدی کی کہانی ہو یا کسی اور کی کب کیا ہو جائے یہ کون جانتا ہے۔ فادر اور گاڈ فادر موقع تو دیتے ہیں لیکن یہ دونوں کامیابی کی ضمانت نہیں۔ سوشانت کو گاڈ فادر بھی ملے، دوست بھی، فلمیں بھی کامیابی بھی ان کی مسکراہٹ، محنت، کامیابی، رویہ، ادب اور آداب تو دوسروں کے لیے مثال ہے وہ تو چاند پر جانا چاہتا تھا کائنات کے راز جاننا چاہتا تھا لیکن اب سب سوشانت کی بھرپور زندگی میں اچانک پراسرار موت کی اینٹری کا راز جاننا چاہتے ہیں۔
دیکھتے ہیں اب کون ’ڈیٹکٹو بیومکیش بخشی‘اس کہانی کو ’دی اینڈ’ تک پہنچائے گا جس کی کوئی ’ہیپی اینڈنگ‘ نہیں۔۔۔۔۔