اب ایک نہیں چار قاضی ہیں

میرے خیال میں یہ مختصر فیصلہ اس عمومی سوال کا جواب لیے ہوئے ہے کہ حق کے ساتھ کون کھڑا ہوا۔ اس مختصر فیصلے نے سوال پوچھنے اور جواب لینے کے لیے کسی بھی حد تک جانے والے ججز کی نشاندہی کر دی ہے۔

سپریم کورٹ کا کمرہ نمبر ایک (سپریم کورٹ)

اس بات سے انکار نہیں کہ ملک میں عوام کی اکثریت کے لیے قانونی موشگافیوں کو سمجھنا آسان نہیں۔ آسان ہی کیا ضروری بھی نہیں۔  عوام کو  کیا لگے کہ دماغ پر زور ڈالیں کہ جی قاضی فائز معاملے پر سپریم کورٹ کا مختصر فیصلہ تو آ گیا اب تفصیلی فیصلے میں کوئی کسی کا کیا بگاڑ لے گا۔

عوام کو ایسی باتوں سے بھی سروکار نہیں کہ سپریم کورٹ کے ججز اپنے چیمبرز میں بیٹھے کس کیس پر کیسے سر دھنتے ہیں۔ کیسی موٹی موٹی کتابیں پڑھ کر کبھی نظریہ ضرورت اور کبھی نظریہ مصلحت کی اختراع ڈھونڈ لاتے ہیں۔

عفت حسن رضوی کا یہ کالم آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں:

 

عوام کی بحث اتنی سی ہے:

سپریم کورٹ نے مقدمہ سنا۔ اچھا بتاؤ ہم کو اس سے کیا؟

سپریم کورٹ کے پاس کیس گیا، اچھا بتاؤ کون ہارا کون جیتا؟

ایک فریق ظالم ہے ایک مظلوم، اچھا بتاؤ کیا مظلوم کی داد رسی کی گئی؟

سات جج اکثریت میں تھے، تین نے اقلیتی فیصلہ دیا، اچھا بتاؤ حق کا ساتھ کس نے دیا؟

قاضی کیس کا مختصر فیصلہ اگرچہ شبہات اور خدشات کے بادلوں میں گہنا گیا لیکن سیانے سمجھتے ہیں اس فیصلے میں سب کے لیے کچھ نا کچھ ہے۔ میرے خیال میں یہ مختصر فیصلہ اس عمومی سوال کا جواب لیے ہوئے ہے کہ حق کے ساتھ کون کھڑا ہوا۔ اس مختصر فیصلے نے سوال پوچھنے اور جواب لینے کے لیے کسی بھی حد تک جانے والے ججز کی نشاندہی کر دی ہے۔

ریفرنس دائر ہونے سے پہلے صرف ایک قاضی تھا جو ہر نوگو ایریا میں قدم رکھ دیتا تھا۔ وہ قاضی جو بڑے سوال کرتا ہے اور بڑے بڑوں سے  کرتا ہے۔ لیکن مختصر فیصلہ آنے کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ اب ایک نہیں چار قاضی ہیں جو نوگو ایریا کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ جج کو عہدے سے ہٹانے کا ریفرنس تھا۔ جج  دہائی لیے اپنے ہی دس برادر ججز کے سامنے آیا کہ مجھے وہ ’بڑے‘ تنگ کر رہے ہیں جن سے میں سوال پوچھتا ہوں، مجھے انہوں نے آن گھیرا ہے جو خود کو جواب دینے سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کے الزام غلط ہیں ان کی نیت بد ہے۔

مقدمہ سال بھر سننے کے بعد دس کے دس ججز نے یک زبان کہا کہ ریفرنس غیرقانونی ہے۔ تاہم ان دس میں سات نے کہا ریفرنس تو ختم ہوا، البتہ جج صاحب الزام کو غلط ثابت کریں۔ سات ججز نے وہ فیصلہ کیا جو عوامی سوچ کا عکاس ہے یعنی احتساب سب کا، چاہے یہ احتساب قانونی تقاضوں سے ماورا ہی کیوں نہ ہو۔ بقول ادا جعفری:

تجھ کو رسوا نہ کیا، خود بھی پشیماں نہ ہوئے

تین جج ایسے تھے جنہوں نے حکم دیا کہ ریفرنس کو بلامشروط ختم کرو۔ یہ ججز اپنے ریمارکس میں بارہا کہہ چکے کہ جو بدنیت ہے اسے پوچھو، جو جاسوسی کرتا ہے اس کی باز پرس کرو، جو انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنے اس دیوار کو پھلانگو نہیں بلکہ ڈھا دو، جو دباؤ میں لے وہ ہاتھ روکو۔

حسنات ملک سپریم کورٹ کے رپورٹر ہیں جو کیس کے حقائق، مندرجات کے علاوہ مقدموں کے پیچھے سیاسی ادھیڑ بن کو بھی چھیڑتے رہتے ہیں۔ مختصر فیصلے کی گرد بیٹھی تو ہم نے کچہری لگائی کہ  اصل میں اس فیصلے کا حاصل  کیا ہے؟ قاضی فائز عیسیٰ کو انصاف ملنا، عدلیہ کا وقار، یا وقار کی عدلیہ؟

حسنات ڈھکے چھپے لفظوں میں بات کرنے کا عادی ہے۔ میرے کھلے ڈلے انداز بیان سے ان کو پہلے ہی بڑے شکوے ہیں۔ اس سوال پر تو وہ جیسے تلملا گیا۔ میں نے کہا کہ ’یہ سوال تو اب بلاتردد خود سپریم کورٹ نے پوچھا ہے، وکلا پوچھ رہے ہیں اور جن کو سیاست کی سمجھ ہے وہ پوچھ رہے ہیں۔ یہ سوال بار رومز سے نکل کر اب سڑکوں اور سوشل میڈیا کی دیواروں پر آ گیا ہے، میں نے کون سی حد ادب عبور کر لی۔‘

حسنات کے مطابق ’یہ کیس ججز کے لیے کسی صورت آسان نہ تھا۔  ایک طرف سوال تھا بدنیتی کا، ایک ساتھی جج کو نشانہ بنائے جانے کا۔ ملک بھر سے وکلا تنظیموں کا دباؤ تھا۔ اور ایک پریشر تھا اس  نعرے کا جو تواتر سے سوشل میڈیا اور حکومتی حلقوں سے بلند کیا گیا وہ تھا ’احتساب سب کا‘۔ لگتا یہی ہے کہ سات ججز اس پاپولر نعرے کی رو میں بہہ گئے۔ بارز کے وکلا اب بھی حیران ہیں کہ دو ججز جن سے امید تھی کہ وہ کھل کر قاضی صاحب کا ساتھ دیں گے، مصلحت  کا شکار کیسے ہوئے۔‘

میرا ماننا ہے کہ تاریخ آپ کو کھرے اور کھوٹے میں بلاتردد فرق جتانے  کا موقع بہت کم دیتی ہے اور جب بھی دیتی ہے ایسے میں مصلحت کے ہاتھوں مجبور افراد اپنا نام غلط خانے میں لکھوا بیٹھتے ہیں۔

اقلیتی فیصلہ دینے والے تین ججز میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس منصور علی شاہ مستقبل میں چیف جسٹس آف پاکستان بنیں گے جبکہ جسٹس مقبول باقر سال بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔

  ملنگ جج کی شہرت رکھنے والے جسٹس مقبول باقر نئے فیورٹ بن کر ابھرے ہیں۔ کراچی کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے جسٹس مقبول  سات برس قبل خودکش حملے میں معجزانہ طور پر بچ چکے ہیں۔ یہ جسٹس مقبول باقر ہی تھے جنہوں نے قاضی فائز عیسیٰ کیس میں کھل کر ججز پر دباؤ ڈالنے والی نادیدہ قوتوں پر سوال اٹھائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اختلاف کرنے والے جسٹس منصور علی شاہ کا تعلق پنجاب سے ہے۔ دو ہزار اٹھارہ میں پشاور رجسٹری میں ایک کیس کی سماعت کے دوران اختلاف رائے پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بینچ سے الگ کردیا تھا۔ منصور علی شاہ اس بینچ میں ثاقب نثار کے ساتھ بیٹھ تو گئے تھے مگر ایک سال بعد انہوں نے نہ صرف اپنی غلطی کا اعتراف کیا بلکہ ثاقب نثار کے حوالے سے لکھا کہ عدلیہ میں اختلافی آوازیں خاموش کرانے سے نظام عدل کی چولیں ڈھیلی ہو جائیں گی۔

اختلاف کرنے والے تیسرے جج جسٹس یحیٰ آفریدی ہیں جنہوں نے قاضی فائز عیسیٰ کی فریاد تو سنی ان سنی کر دی تاہم انہی کے حق میں  وکلا تنظیموں کی درخواستیں منظور کی ہیں۔ حسنات کے بقول سب سے دلچسپ نوٹ وہ ہوگا جو جسٹس آفریدی لکھیں گے۔ ان  کے بارے میں بس اتنا جان لیجیے کہ یہ جنرل مشرف کی نافذ کردہ ایمرجنسی کو چیلنج کرنے والوں میں شامل تھے۔

قاضی کیس کا مفصل فیصلہ ابھی وقت لے گا۔ ججز وجوہات، منطق، علم، عدالتی نظیروں اور آئین و قوانین کی روشنی میں فیصلہ لکھیں گے۔ ہوسکتا ہے اس میں سخت احکامات ہوں، یا پھر یہ فیصلہ بہت سے کالے کوٹ والوں کی طبیعت پر گراں گزرے، کیا پتا توپوں کا رخ بدل جائے یا پھر یہ بھی ممکن ہے تفصیلی فیصلہ مصلحتوں کے سارے چولے اتار پھینکے۔

حسنات کا کہنا بھی ٹھیک ہے کہ اس کیس میں مقتدر حلقوں کے کردار کے ساتھ ساتھ ججز کی اندرونی سیاست کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اب قاضی صاحب کی قسمت  کا فیصلہ برادر ججز کے ہاتھوں میں ہوگا۔

تاہم انتظار کیجیے اس اقلیتی فیصلے اور اختلافی نوٹس کا بھی، جو شاید پاکستان میں عدلیہ کے مستقبل کی نئی لکیر کھینچے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ