سچ بتائیں تو ابتدا میں ہمیں ’ارطغرل‘ سیریز سے قطعی کوئی دلچسپی یا لگاؤ نہیں تھا، لیکن یار دوستوں کی محفلوں میں جب ارطغرل، حلیمہ سلطان اور قائی قبیلے کا چرچا ہونے لگا تو ہم ہونقوں کی طرح ان سب کا بس منہ ہی تکتے رہتے۔ ہر کوئی سمجھیں کہ ’ارطغرل بخار‘ سے دوچار تھا۔
کوئی حلیمہ سلطان کی پروقار خوبصورتی کے گن گا رہا ہوتا تو کوئی ارطغرل کی شجاعت اوربہادری کے، تو کہیں کوئی کورتغلو کی غداری پر اسے کوسنے دیتا، کہیں کوئی امیر سعد الدین تین کوپیک کی شاطرانہ چالوں سے عاجز تھا۔
رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی جہاں بھرمار تھی’ارطغرل‘ سے جڑی پوسٹس کی۔ کہیں مخالفت تو کہیں تعریف و توصیف کے قلابے۔ حد تو اس وقت ہو گئی جب پان کے کھوکھے پر ہمیں ’ارطغرل پاپڑ‘ اور ’حلیمہ چھالیہ‘ لٹکی ہوئی نظر آئیں۔ عین ممکن ہے کہیں ’ارطغرل گٹکا‘ بھی فروخت ہو رہا ہو۔
اب یہ سب دیکھ اور سن کر ہمارے اندر بھی اشتیاق اور تجسس ہوا کہ زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کے لیے کیا برا ہے جو ہم بھی یہ شاہکار دیکھ لیں جس کا ہر جانب چرچا ہے۔ سرکاری ٹی وی پر اسے دیکھنا شروع کیا، اگلی قسط کے لیے پورے ایک دن کا انتظار ہمیں اور بے چین کرتا گیا۔ جبھی پچھلی اور آنے والی اقساط کے لیے یو ٹیوب کا سہارہ لیا۔ بس جی مت پوچھیں ایک قسط ختم کرتے تو دل اور دماغ یہ قلابازیاں کھانے لگتا کہ اب کیا ہو گا۔ جبھی جھٹ پٹ دوسری قسط بھی دیکھ ڈالتے۔ یار دوستوں نے اس مرحلے پر ’سفارتی مدد‘ کرتے ہوئے بے شمار ایپلی کیشز بھی بتا دیں جن کے ذریعے ’ارطغرل‘ ہماری پہنچ میں رہا۔
ایک سیزن مکمل کیا تو دوسرا ہماری جانب بانہیں کھولے کھڑا تھا اور پھر جناب سب کام کاج چھوڑ کر ارطغرل صاحب کے پانچوں سیزن کو ایسے نمٹا دیا جیسے اگر یہ ہدف نہ پورا کیا تو کہیں مقابلہ ہم ہار ہی نہ جائیں۔ اعتراف تو کرنا ہی پڑے گا کہ ’ارطغرل‘ واقعی نشے کی طرح ہے۔ کہانی بھی شیطان کی آنت ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ایک قسط دیکھنے کے بعد آپ کے اندر خود بخود جستجو بڑھ جاتی ہے کہ چلیں اگلی قسط بھی دیکھ لیتے ہیں تاکہ پتہ تو چلے آخرہوا کیا پھر۔ اور اس ’چلیں‘ کی وجہ سے بس ارطغرل کو چھوڑنے کا دل کسی بھی لمحے نہیں چاہتا۔ ایک کے بعد ایک ایسے ڈرامائی موڑ آتے ہیں کہ آپ نہ چاہتے ہوئے مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس سلسلے کو جاری رکھنے پر۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گو کہ ’ارطغرل‘ اپنی پروڈکشن، اداکاروں کی غیر معمولی اداکاری، ڈرامائی موڑ‘ ایکشن، ایڈونچر اور تاریخی پس منظر کی بنا پر دلچسپی سے خالی نہیں، لیکن کچھ پہلوؤں پر ہدایت کار متین گونے نے کچھ زیادہ ہی ڈرامائی رنگ دیا ہے۔ جیسے اچانک ہی کوئی نہ کوئی اپنوں سے ایسا روٹھ اورخفا ہوجاتا ہے کہ لفظوں کی گرما گرمی ہی نہیں سازشوں کے جال بھی بننا شروع کر دیتا ہے۔ اچھا خاصا ہنسی خوشی کہانی آگے بڑھ رہی ہوتی ہے اور پھر نجانے کیسے ننھی منی سی بات پر کوئی ایسا منہ پھلا کر اکڑفوں دکھاتا ہے کہ آناً فاناً دشمنوں کا دوست بن جاتا ہے۔
ارطغرل اور اِن کے جانباز جنگجوؤں کے تیروں کے نشانے ایسے غضب کے ہوتے ہیں کہ دشمن پلک جھپکتے میں پکے ہوئے آم کی طرح زمین پر ٹپک پڑتے ہیں۔ البتہ مخالفوں کی جانب سے لگائے گئے ارطغرل صاحب کی ٹیم پر چاقواور تلوار کے وار اس قدر کار گر ثابت نہیں ہوتے اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اکلوتے معالج عارف صاحب کی معمولی سی مرہم پٹی کے بعد زخم بھی بھر جاتے ہیں۔
ارطغرل کے جاسوس تو پکڑے جاتے ہیں۔ لیکن کیسی حیرت کی بات ہے کہ دشمنوں کے بھیجے ہوئے جاسوس، قبیلے میں ہی نہیں مرکزی خیموں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
یہی نہیں جناب یہ جاسوس، بڑے مزے سے مخبریاں کرنے کے لیے محل یا اپنے آقاؤں سے میل میلاپ کرتے رہتے ہیں لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ حد تو یہ ہے کہ یہ مخبر، سرداروں کے خیمے کے باہر کان لگا کر اِدھر کی بات اُدھر پہنچاتے رہتے ہیں لیکن کوئی ان کی اس جاسوسی پر توجہ ہی نہیں دیتا۔ اس سارے کھیل تماشے سے فرصت ملتی ہے تو خواتین کی آپس میں تلخ کلامی اور لڑائی جھگڑا بھی ایکتا کپور کی یاد دلا دیتا ہے۔
ہم تو اس نتیجے پر پہنچے کہ ’ارطغرل‘ دیکھنے کے بعد عملی زندگی میں کچھ چیزوں کا خاص خیال رکھیں۔ ایسے ہی کچھ مشورے پیشِ خدمت ہیں:
- اگر آپ کے قبضے میں کوئی اہم چیز ہے تو ارطغرل کے بھائی صارم کی طرح اسے ایسے ہی نہ رکھیں جیسے انہوں نے دوسرے سیزن میں اہم ’مہر‘ کو رکھ چھوڑا تھا اور وہ ان کے خیمے سے اڑا لی گئی تھی۔
- کبھی بھی چار سے پانچ افراد آپ سے بھڑ جائیں تو ہرگز ان سے نہ الجھیں بلکہ سر جھکا کر اچھے بچوں کی طرح اپنی راہ لیں، کیونکہ یاد رکھیں کہ آپ ارسل یا ارمغان تو ہو سکتے ہیں ارطغرل نہیں۔
- جب کبھی بھی کوئی راز کی بات کریں تو آس پاس دیکھ لیا کریں بلکہ دور دور تک بھی دیکھ لیں کہیں کوئی دیکھ اور سن تو نہیں رہا، کیونکہ ڈرامے میں دور کھڑے افراد بھی سرگوشیاں ’وائی فائی‘ کے سگنلز کی طرح خوب ’کیچ‘ کرتے نظر آئیں گے۔
- محبت کے چکر میں اپنی زندگی برباد نہ کریں، ہو سکتا ہے جس سے آپ پیار کرتے ہوں اس کے حلیمہ سلطان کی طرح اس قدر دشمن ہوں کہ آپ کی زندگی پریشانیوں اور مسائل کے طوفان میں گھر جائے۔
- سیریز میں تواتر کے ساتھ ہر چھوٹی بڑی بات پر دعوتیں اڑائی گئی ہیں لیکن آپ اپنے بجٹ اور مالی حالات کو دیکھ کر اس قسم کی دعوتوں کا انتظام کریں اور خاص کر کرونا (کورونا) وائرس کی اس وبا میں تو سماجی فاصلوں کا خیال رکھتے ہوئے یہ محفلیں نہ ہی سجائیں تو بہتر ہے۔
- جو صاحبان لاک ڈاؤن کے باوجود گھروں میں بیٹھنے کو تیار نہیں۔ وہ کچھ نہ کریں، بس ’ارطغرل‘ لگائیں، پھر دیکھیں کہ کیسے آپ گھر کے قیدی بن جاتے ہیں۔ شرطیہ کہتے ہیں کہ باہر نکلنے کو دل نہیں چاہے گا۔
- اور آخر میں خصوصی مشورہ: اگر آپ کو تاریخ کے بارے میں معلومات حاصل کرنی ہیں تو ڈراموں پر اعتبار نہ کریں، مستند تاریخی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ یاد رکھیں کہ ڈراما نگار اپنی کہانی کو دلچسپ بنانے کے لیے اپنی جیب سے اتنا مصالحہ ڈال دیتے ہیں کہ اصل ہانڈی کا ذائقہ کہیں دب جاتا ہے۔