برونائی میں ہم جنس پرستوں کو سنگسار کرنے کا فیصلہ

اگلے بدھ سے ہم جنس پرستوں کے لیے موت کی یہ سزا نافذ ہونے کے بعد برونائی جنوب مشرقی ایشیا میں ہم جنس پرستوں کو سنگسار کر دینے والا پہلا ملک بن جائے گا۔

برونائی دارالسلام میں ہم جنس پرستی کی سزا اب موت ہو گی۔

 یہ سزا ہم جنس پرست جوڑے کو موت تک سنگسار کرنے یا کوڑے مارنے کی صورت میں دی جائے گی۔ بین الاقوامی سطح پر برونائی کے  آئین میں اس تبدیلی کی مذمت بہت سے ممالک کی طرف سے جاری ہے۔

اگلے بدھ سے ہم جنس پرستوں کے لیے موت کی یہ سزا نافذ ہونے کے بعد برونائی جنوب مشرقی ایشیا میں ہم جنس پرستوں کو سنگسار کر دینے والا پہلا ملک بن جائے گا۔

ہم جنس پرستی برونائی میں پہلے بھی غیرقانونی تصور کی جاتی تھی اور ایسا کوئی قدم اٹھانے پر طویل قید کی بہت سی مثالیں وہاںموجود ہیں تاہم شریعہ قانون نافذ کرنے کی طرف گامزن برونائی اب ایسی سزاؤں کو مزید سخت کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہے۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور دیگر اداروں نے ان سزاؤں کو غیر انسانی اور بہیمانہ قرار دیا ہے۔  

ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کردہ وارننگ میں چوری کرنے کی صورت میں ہاتھ پاؤں کاٹ دینے کی سزا پر بھی شدید عدم تحفظ کا اظہار کیا گیا ہے۔ نیز اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ مذکورہ قانون کا اطلاق بچوں پر بھی کیا جائے گا۔

ریشل کووا ہاورڈ جو برنائی میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے کے تحقیق کار ہیں،  ان کا کہنا تھا کہ 'برونائی کے قانون میں ایسے بہت سے 'جرائم' موجود ہیں جنہیں اصولی طور پہ جرم کی فہرست میں نہیں ہونا چاہیئے تھا، جن میں دو افراد کی رضامندی سے ہم جنسی فعل بھی شامل ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ برونائی حکومت کو ایسی ظالمانہ سزاؤں پر نظر ثانی کرتے ہوئے اپنے قانون کو دوبارہ سے تشکیل دینا چاہیئے تاکہ وہ انسانی حقوق کے معاملے میں بین الاقوامی برادری سے ہم آہنگی کی دوڑ میں شامل ہو سکے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے پیٹر ٹیشل نے نمائندہ انڈیپنڈنٹ سے بات کرتے ہوئے بتایا: 'یہ غیرعقلی طور پر پسماندگی کی طرف اٹھایا گیا ایک قدم ہے جو برونائی کی بین الاقوامی ساکھ تباہ کر دے گا۔ اس قانون کے نتیجے میں ذہین لیکن ہم جنس پرست نوجوان ملک سے بھاگ جائیں گے اور اس کا نتیجہ ملکی معیشت کو بھاری نقصان کی صورت میں اٹھانا پڑے گا۔ اس فیصلے کا نتیجہ برونائی میں سیاحت کے خاتمے کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ برونائی دولت مشترکہ کا رکن ہے اور ایسا کوئی بھی قانون اس کے آئین سے متصادم تصور کیا جائے گا۔'

تیل کی دولت سے مالامال اس قوم کی دو تہائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جب کہ مسیحی اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے بھی کثیر تعداد میں یہاں موجود ہیں۔ اس قانون کے خلاف برونائی میں کوئی آواز اٹھتی دکھائی نہیں دیتی کیوں کہ بادشاہت میں بغاوت کا تصور وہاں تقریبا عنقا ہے۔

برونائی ایک طویل عرصے سے ایسے ہی پسماندہ قوانین کے لیے جانا جاتا ہے۔ شراب پر مکمل پابندی اور بہت سے دوسرے جرائم پر چھڑیوں سے ملزم کو پیٹنے کی سزا بھی ان قوانین میں شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا