کالے سونے کا ذخیرہ کیا پرانی قیمتوں پر بک پائے گا؟

جب تک تیل  کی کمپنیاں  اپنی حکمت عملی تبدیل نہ کریں اور مناسب انداز میں صاف  توانائی کے دوسرے  منصوبوں میں  سرمایہ کاری نہ کریں۔  ان کے متروک ہونے کا خدشہ موجود ہے ۔

لاکھوں بیرل کا یہ کالے سونے کا ذخیرہ جسے شیل اگلے کئی سالوں کے دوران بیچنے کا خواہشمند تھا، اب اس کی مالیت پرانے تخمینوں سے کہیں کم ہوگی(اے ایف پی)

عام طور پر تیل بردار جہازوں کو ایک ایسی صنعت کے طور پر لیا جاتا ہے جو بہت سست رفتار ہو اور جس کو کسی تبدیلی  سے گزارنے کے لیے بہت زیادہ کوشش درکار ہو۔

لیکن جناتی اور برق رفتار جہازوں پر یہ بات لاگو نہیں کی جا سکتی ۔ تاہم  وہ کمپنیاں جو اپنی مصنوعات کی ترسیل کے لیے  ان جہازوں کو استعمال کرتی ہیں ان پر بڑی حد تک اس بات کا اطلاق ہوتا ہے۔

اور یہ دنیا کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اس کی ایک  ہلکی سی جھلک ہمیں اس ہفتے دیکھنے کو ملی جب وبا کی وجہ سے تیل کی گھٹتی طلب کے باعث شیل نے  منگل کو اپنے 22 ارب ڈالر کے زیر زمین ایندھن کے ذخائر (فوسل فیول) ترک کردیے۔

شیل کی حریف تیل کمپنی بی پی نے بھی  ایک ایسا ہی قدم اٹھایا۔

لاکھوں بیرل کا یہ کالے سونے کا ذخیرہ جسے شیل اگلے کئی سالوں کے دوران بیچنے کا خواہشمند تھا، اب اس کی مالیت پرانے تخمینوں سے کہیں کم ہوگی۔

 مالیاتی ادارے ہارگریوز لانز ڈاون کے نیکولس ہیت کے مطابق اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کہیں شیل مستقبل کے تخمینوں کو مرتب کرتے وقت ذیادہ خوش فہمی کا شکار تو نہیں تھا؟

اور اگر وہ مستقبل کے حوالے سے زیادہ پر امید تھا تو اس کا مطلب ہے کہ آنے والے دنوں میں اسے مزید نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

ابھی تک تو حالات زیادہ سنگین نہیں۔ اور اس کی وجہ  یہ ہے کہ گزشتہ سال شیل کو 345  ارب ڈالر کی آمدن ہوئی۔

تاہم  یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تیل کے  بڑے منصوبوں کو  بند کرنے کے لیے بھی طویل وقت اور بھاری سرمایہ درکار ہوتا ہے۔

اگر کمپنیاں فیصلہ کرنے میں دیر کردیں اور حکومتی ترجیحات تبدیل ہوجائیں  تو تیل کی کمپنیوں کے لیے ایک مصیبت کھڑی ہو سکتی ہے کہ  ان کمپنیوں نے جن ذخائر میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے ان میں سے اکثر اپنی قدر کھو دیں گے۔

جب تک تیل  کی کمپنیاں  اپنی حکمت عملی تبدیل نہ کریں اور مناسب انداز میں صاف  توانائی کے دوسرے  منصوبوں میں  سرمایہ کاری نہ کریں۔  ان کے متروک ہونے کا خدشہ موجود ہے۔

اس سے نہ صرف اربوں  پاونڈز کی سرمایہ کاری ضائع ہو جائے گی بلکہ حکومت کو ان تیل اور گیس کے ذخائر کو بند کرنے کا بھاری بو جھ اٹھانا پڑے گا۔  اگر تیل کے ان ذخائر کو ایسے ہی گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تو یہ ماحول کے لیے  بھی شدید نقصان دہ ہوگا۔

تھنک ٹینک کاربن ٹریکر کی تحقیق کے مطابق  امریکہ میں جہاں نسبتا  چھوٹے تیل کے کنویں ہیں ان میں سے لاکھوں یا تو بند ہو چکے ہیں یا نفع بخش نہ ہونے کے بعدایسے ہی پڑے ہیں کیونکہ چھوٹے خودمختار مالکان کے پاس ان کنوؤں کو مناسب  طور پربند کرنے کے لیے بھی سرمایہ نہیں ہے۔  بڑی کمپنیا ں ابھی تک اس  صورتحال سے دوچار نہیں ہوئیں۔

اس وقت اکثر ماہرین اور تیل پیدا کرنے والی کمپنیاں اس بنیاد پر اپنی حکمت عملی وضع کر رہی ہیں کہ طویل عرصے تک تیل کی قیمتیں کم رہیں گی۔ یہ بڑی کمپنیوں کے لیے بھی تکلیف دہ تو ہوگا لیکن وہ اس کڑے وقت سے کسی طور گزر جائیں گے۔

اصل مسئلہ اس وقت ہوگا جب  تیل کی قیمتیں مستقل طور پر کم ترین سطح پر برقرار رہیں یا مستقل زوال پذیر رہیں۔ اگر منافعے کی امید ختم ہوگئی تو خوردنی تیل پیدا کرنے والے ان کنوؤں کا کوئی خریدار تک نہیں ہوگا ۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بحران اپنی جگہ لیکن اس وقت تیل کی صنعت کے خاتمے کا اعلان قبل از وقت  ہوگا ۔ بین الاقومی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف  کے مطابق 2017  میں حکومت نے فوسل فیول  کی پیداوار کے لیے  5.2  کھرب ڈالر کی امداد فراہم کی۔

اب بھی جہازوں اور کئی اہم صنعتی  امور کے لیے  دنیا تیل کی محتاج ہے۔ ہر چیز فوری  طور پر بجلی پر منتقل نہیں کی جاسکتی۔

دوسری جانب تیل کی کمپنیوں کو ہونے والے حالیہ نقصانات میں مستقبل کی جھلک  دیکھی جا سکتی ہے۔

مستقبل قریب میں  تیل اور گیس کی قیمتوں میں کسی نمایاں اضافے کا  امکان مشکل ہے۔ ایک طرف تو قابل تجدید توانائی اب زیادہ سستی ہے  اور دوسرا اس کو دوسرے ممالک کو ترسیل کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ جو سیاسی طور پر غیر مستحکم ہیں۔

تیل کی صنعت کے لیے سب سے بہتر یہ ہوگا کہ ایک تو وہ فوسل فیول سے متعلق اپنے اثاثہ جا ت جامع منصوبہ بندی کے ساتھ کم کریں اورساتھ ہی  توانائی کے دوسرے کم منافع بخش  لیکن پائیدار ذرائع پر بتدریج منتقل ہو جائیں۔

بدترین حالات ہو سکتے ہیں اگر فوسل فیول کو ختم کرنے کی  بڑھتی ہوئی خواہش کا ادراک نہیں کیا گیا۔

بظاہر بڑی کمپنیاں دوسرا راستہ اختیار کر رہی ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ انہوں نے نئے میدانوں میں سرمایہ کاری بڑی حد تک روک دی ہے، لیکن اب بھی وہ تیل اور گیس کی مزید فراہمی کے لیے سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ صاف توانائی میں ان کی سرمایہ کاری مقابلتاً نہایت معمولی ہے۔

2050 تک مضر گیسوں کے اخراج کو ختم کرنے کے منصوبوں کے باوجود اکثر بڑی تیل کمپنیوں کے اخراجات کے منصوبے بظاہر ابھی تک اس بات کا احاطہ نہیں کر پائے کہ پالیسیاں کتنی جلدی بدل سکتی ہیں، خاص طور پر کرونا وائرس کی وبا کے پیشِ نظر جہاں حکومتیں دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔

گذشتہ سالوں میں کسی بحران کو بہانہ بنا کر کوئلے جیسی گندی توانائی پر منتقل ہونے کی بارہا مثالیں ملتی ہیں۔ حکومتیں اکثر نشو و نما کو کسی بھی دوسری قیمت پر ترجیح دیتی رہی ہیں۔

تاہم ایسی وجوہات موجود ہیں کہ اب کے کچھ مختلف ہو گا۔ کوئلہ اتنا سستا نہیں رہا اور اب ماحولیات کے بارے میں کہیں زیادہ تحرک موجود ہے، جو 2008 میں بھی نہیں تھا۔

اگر تیل کی بڑی کمپنیوں کو یہ ظاہر کرنے کے لیے کسی تنبیہ کی ضرورت ہے کہ ہوا کا رخ کتنی جلدی بدل سکتا ہے تو انہیں صرف کوئلے کی بڑی کمپنیوں پر ایک نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔ 2010 کے بعد سے چار بڑی امریکی کوئلے کی کمپنیوں کی قدر میں 99 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق