برطانیہ کی پہلے سعودی عرب پر پابندیاں پھر 'خفیہ معذرت'

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق برطانوی حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے پر سعودی عرب پر کھلے عام تنقید اور پابندیاں عائد کرنے کے بعد اگلے ہی روز خفیہ طور پر سعودی حکومت کی تعریف کی ہے۔

شاہ سلمان اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی تصاویر  جو ایک تقریب کے دوران جدہ میں لگائی گئی تھیں (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

برطانوی اخبار دی انڈپینڈنٹ کے مطابق برطانوی حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے پر سعودی عرب کو کھلےعام تنقید اور پابندیاں عائد کرنے کے بعد اگلے ہی روز خفیہ طور پر سعودی حکومت کی تعریف کی ہے۔

برطانوی حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے پیر کو چند سعودی شہریوں کو نئے ’میگنٹسکی ایکٹ‘ کے تحت وزیر خارجہ کی ممنوعہ فہرست میں شامل کیے جانے کے بعد سعودی حکومت کو ’معذرت' پر مبنی فون کیا ہے۔

یہ مانا جا رہا ہے کہ وزیر خارجہ بین ویلیس نے اپنے سعودی ہم منصب کو بدھ کو ٹیلی فون کر کے سعودی حکومت کے لیے برطانوی حمایت کی یقین دہانی کروائی۔ اس فون کال کے حوالے سے برطانوی حکومت نے برطانیہ میں کوئی بیان جاری نہیں کیا لیکن سعودی سرکاری نیوز ایجنسی نے اس موقعے کو استعمال کرتے ہوئے بدھ کو بیان جاری کیا۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق ’نائب وزیر دفاع جناب خالد بن سلمان بن عبدالعزیز کو اپنے برطانوی ہم منصب وزیر دفاع بین ویلیس کی کال موصول ہوئی ہے، جس کے دوران دونوں ممالک کے درمیان اشتراک پر گفتگو ہوئی۔ خاص طور پر دفاعی شعبے سے متعلق اور عالمی اور علاقائی سلامتی کے حوالے سے دونوں ممالک کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔‘

سعودی میڈیا کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ نے ’خطے میں امن اور خطرات سے نمٹنے کے لیے سعودی کردار کی تعریف کی۔ انہوں نے اپنی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے دونوں دوست ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات میں مضبوطی کا اعادہ کیا، باالخصوص سعودی عرب کو بھیجی جانے والی دفاعی مصنوعات کے حوالے سے اپنی حکومت کی دلچسپی کا اظہار کیا۔‘

یہ فون کال ایک ایسے وقت میں کی گئی جب عالمی سیکرٹری تجارت لز ٹروس نے سعودی عرب پر عائد برطانوی دفاعی سامان کی پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔

لز ٹروس نے اس سامان کی فروخت کے حوالے سے عدالت کے اس حکم کے بعد نظرثانی کی تھی جس میں سعودی افواج کے یمن میں ’ممکنہ‘ جنگی جرائم کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ نظرثانی رپورٹ کے مطابق لز ٹروس نے ان واقعات کو ’انفرادی واقعات‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب الگ الگ جگہوں پر مختلف طریقے سے وقوع پذیر ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کی قیادت کی امیدوار لیلی موران نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے ایک دن سعودی شہریوں کے خلاف کارروائی کی جب کہ اگلے دن خفیہ طور پر معذرت کر لی۔ یہ ان اقوام اور افراد کو غلط پیغام بھیجتا ہے جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔

'حکومت کو ایک ہی بار اس بارے میں فیصلہ کرنا ہو گا کہ برطانیہ عالمی طور پر کیسی قوم بننا چاہتا ہے۔ وہ لبرل اقدار کے ایک عالمی رہنما کے طور پر پہچانا جانا چاہتا ہے یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والوں کے ہمدرد کے طور پر۔‘

سوموار کو اعلان کردہ پابندیوں کا نشانہ بننے والوں میں 20 سعودی شہریوں سمیت روس، میانمار اور شمالی کوریا سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔

فون کال کے دوران جاری کیے جانے والے مبینہ بیانات وزیر خارجہ ڈومینک راب کے اس موقف سے اختلاف رکھتے ہیں جو وہ رواں ہفتے پارلیمان میں دے چکے ہیں۔

دارالعوام سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ نے کہا، ’جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں انہیں کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی ۔ ۔ ۔ کہ وہ ناچتے ہوئے اس ملک میں آئیں، کنگز روڈ پر جائیداد خریدیں، نائٹس برج میں کرسمس کی خریداری کریں، یا برطانوی بینکوں سے کالا دھن سفید کریں۔

’آپ اس ملک میں قدم نہیں رکھ سکتے اور اگر آپ نے ایسی کوشش کی تو ہم آپ کی خون سے لتھڑی غیرقانونی ذرائع سے حاصل کردہ رقم ضبط کر لیں گے۔‘

سعودی عرب کی پالیسیوں کے بارے میں تشویش میں اس کی فوج کا یمن میں کردار، اس کی ملک کے اندر انسانی حقوق کی صورتِ حال اور صحافی جمال خاشقجی کا 2018 میں استنبول کے سعودی کونسلیٹ میں مبینہ قتل شامل ہیں۔  

وزارتِ دفاع کے ایک ترجمان نے کہا: ’اس ہفتے وزیرِ دفاع نے اپنے سعودی ہم منصب سے وسیع تر علاقائی سلامتی اور برآمد کے لائسنسوں کے بارے میں بات کی ہے۔ حکومت اپنی برآمد کی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا