'مشکوک لائسنس سکینڈل کی تحقیقات وزارت بحری امور نے کیوں کیں؟'

مشکوک لائسنس سکینڈل کی زد میں آنے والے پائلٹ ظاہر محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں اس پورے معاملے کی تحقیقات کے حوالے سے اہم سوال اٹھائے ہیں۔

پائلٹ ظاہر محمود کا دعویٰ ہے کہ ان کی ایک بھی ڈگری یا لائسنس جعلی نہیں اور وہ اس کا ثبوت دینے کے لیے تیار ہیں (ویڈیو سکرین گریب)

37 سالہ پائلٹ ظاہر محمود ان 262 پائلٹس میں شامل ہیں جن کے ناموں کی فہرست وزارت ہوا بازی نے مشتبہ لائسنس کیس میں جاری کی تھی۔

ظاہر ان پائلٹس میں سے ایک ہیں جنہوں نے 2012 میں سول ایوی ایشن  (سی اے اے) کے امتحانی نظام میں بڑی تبدیلیوں کے بعد اپنا امتحان دیا تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ظاہر نے بتایا کہ وہ موجودہ صورت حال کو دیکھ کر اکثر سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اگر انہوں نے 2012 میں اپنا امریکی کمرشل پائلٹ اور ایئر ٹرانسپورٹ پائلٹ لائسنس پاکستانی لائسنس میں تبدیل نہ کروایا ہوتا تو ان کا کیریئر اور ان کی زندگی معمول کے مطابق ہوتی اور وہ اپنے ریٹائرمنٹ پلان پر بغیر کسی رکاوٹ کے عملدرآمد کر رہے ہوتے۔

ظاہر نے اپنی بیچلرز کی ڈگری بزنس ایڈمنسٹریشن میں حاصل کی ہے۔ 2004 میں وہ امریکہ منتقل ہوئے جہاں انہوں نے دو سال ایک نجی کمپنی میں انتظامی امور سے متعلق عہدے پر کام کیا تھا۔

ان کے فلائنگ کیرئیر کا آغاز 2006 میں ہوا۔ 2007 میں انہوں نے امریکہ سے اپنا کمرشل پائلٹ لائسنس حاصل کیا اور ایک سال بعد وہیں سے فلائٹ انسٹرکٹر کی ٹریننگ حاصل کی۔ 2012 میں انہوں نے امریکہ سے ہی اپنا ایئر لائن ٹرانسپورٹ پائلٹ لائسنس بھی حاصل کیا، اس وقت وہ امریکہ کے ایک معروف فلائنگ سکول میں بطور چیف فلائٹ انسٹرکٹر بھی کام کر رہے تھے۔

ظاہر کے مطابق وہ 2012 میں ہی پاکستان آئے اور انہوں نے سول ایوی ایشن (سی اے اے) میں امتحان دے کر اپنا امریکی کمرشل پائلٹ لائسنس، پاکستانی لائسنس میں تبدیل کروالیا۔ جس کے بعد انہوں نے شاہین ایئرلائن میں بطور پائلٹ نوکری کا آغاز کیا جس میں فرسٹ افسر کے لیے صرف ان کا سی پی ایل ہی درکار تھا۔

شاہین ایئرلائن میں شروع کے تین سال تک انہوں نے بوئنگ 737 جہاز اڑایا اور 2015 سے ایئرلائن کے بند ہونے تک انہوں نے ایئربس 320 پر بھی فلائنگ کی۔

 2018 میں شاہین ایئرلائن کے فضائی آپریشن مؤخر ہونے کے بعد انہوں نے امارات ایئرلائن میں شمولیت اختیار کرلی، جس کے لیے انہوں نے پھر اپنا امریکی ایئر ٹرانسپورٹ پائلٹ لائسنس بھی پاکستانی لائسنس میں تبدیل کروایا۔

ظاہر کے مطابق ان کی ایک بھی ڈگری یا لائسنس جعلی نہیں اور وہ آج بھی اس بات کا ثبوت دینے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم 2012 میں سی اے اے میں اپنا امریکی کمرشل پائلٹ لائسنس کو پاکستانی لائسنس میں تبدیل کروانے کے لیے دیے گئے امتحان میں انہیں صرف ایک زبانی امتحان میں پاس ہونے کے باوجود بھی اس میں غیر موجود قرار دے کر پرچے میں فیل قرار دیا گیا، جس کے باعث ان کا نام 262 جعلی لائسنس والے پائلٹس کی لسٹ میں آیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امتحانات میں پاس ہونے کے لیے 100 میں سے 70 نمبر لازمی لینے ہوتے تھے۔ سول ایوی ایشن کے سوالات کے ذخائر میں اکثر غلطیاں ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے جن افراد کے نمبر 67 نمبر یا اس سے زائد تھے مگر 70 سے کم ہوتے تھے تو ایئر نیوی گیشن آرڈر 002-XXCL کے تحت انہیں یہ آپشن دیا جاتا تھا کہ وہ اسی مضمون میں پاس ہونے کے لیے اپنا زبانی امتحان دے سکتے تھے۔

انڈپینڈنٹ کو دیے گئے انٹرویو میں ظاہر محمود نے بتایا کہ انہیں جیسے ہی یہ معلوم ہوا کہ ان کا نام بھی جعلی لائسنس والے پائلٹس کی لسٹ میں آیا ہے تو انہوں نے سول ایوی ایشن کے ایڈیشنل ڈائریکٹر لائسنسنگ خالد محمود سے اس بارے میں فوری طور پر رابطہ کیا۔

ظاہر کے مطابق ایڈیشنل ڈائریکٹر لائسنسنگ نے انہیں اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ 'یہ تحقیقات ان کی جانب سے نہیں کی گئی ہیں۔ دو سال قبل جعلی لائسنس کے معاملے میں سول ایوی ایشن کی جس تحقیقات آغاز ہوا تھا اور اس میں جو نام سامنے آئے تھے وہ یہ نام نہیں ہیں۔'

سول ایوی ایشن کے ایڈیشنل ڈائریکٹر لائسنسنگ نے مزید بتایا کہ ظاہر کے تمام پرچے پاس ہیں یہاں تک کہ ان کے زبانی امتحان کے ریکارڈ کی کاپی بھی ان کی فائل میں موجود ہے۔

اس معاملے میں کی جانے والی تحقیقات پر سوال اٹھاتے ہوئے پائلٹ ظاہر محمود نے کہا: 'سول ایوی ایشن کی جانب سے پائلٹس کی جو لسٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ہے اس میں واضح طور پر وزارت بحری امور کے سیکریٹری رضوان احمد کے دستخط اور مہر موجود ہے۔ وزارت بحری امور کے سیکریٹری انکوائری بورڈ کے کنوینئر ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ پائلٹس کے جعلی لائسنس کیس میں وزارت بحری امور سے تحقیقات کیوں کروائی گئی ہیں؟'

اس حوالے سے جب ہم نے وزارت بحری امور کے پرسنل ریلیشنز افسر عمر فاران سے وضاحت طلب کی اور ان سے پوچھا کہ وزارت بحری امور نے پائلٹس کے جعلی لائسنس کی تحقیقات میں کس طرح معاونت کی ہے تو انہوں کہا کہ وہ سیکریٹری رضوان احمد سے بات کرکے بتائیں گے، تاہم اس کے بعد ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔

حال ہی میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے پاکستانی پائلٹس کے جعلی لائسنس کے معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ اس نوٹس میں انہوں نے نہ صرف طیارہ حادثے کی عبوری رپورٹ پر سوال اٹھائے تھے بلکہ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کے قومی اسمبلی میں دیے ہوئے بیان پر سول ایوی ایشن سے جواب بھی طلب کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل حسن ناصر جامی نے 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں تحریری جواب جمع کروایا۔ انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب اس جواب کی کاپی کے مطابق اب تک سول ایوی ایشن کی جانب سے کل 1934 لائسنس دیے گئے ہیں جن میں کمرشل پائلٹ اور ایئر ٹرانسپورٹ پائلٹ لائسنس شامل ہیں۔

تحریری جواب میں مزید کہا گیا کہ سول ایوی ایشن کے ایسے 262 مشتبہ پائلٹس کی نشاندہی کی گئی ہے جنہوں نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے کمپیوٹرائزڈ تکنیکی امتحانی نظام میں غیر مجاز رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔

اس رپورٹ کے مطابق بورڈ آف انکوائری نے ان بنیادوں پر پائلٹس کے لائسنس کو جعلی قرار دیا ہے۔ جن پائلٹس نے :

1۔ مقررہ تاریخ پر اپنے پرچے نہیں دے۔

2۔ مقررہ وقت پر اپنے پرچے نہیں دیے۔

3۔ کسی مختلف آئی پی ایڈریس سے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے امتحانی سرور کھولنے کی کوشش کی۔

4۔ مختلف یوزر نیم اور پاس ورڈ کے ذریعے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے امتحانی سرور کو کھولنے کی توشش کی۔

5۔ پائلٹ فلائٹ لاگ بک کے مطابق پرچوں کے مقررہ وقت پر پائلٹس جہاز اڑا رہے تھے۔

پائلٹس کے لائسنسز جعلی قرار دینے کی وجوہات کے حوالے سے پائلٹ ظاہر محمود نے انڈپیندںٹ اردو کو بتایا کہ جن بنیادوں پر لائسنس منسوخ کیے گئے ہیں، ان کی تحقیقات مکمل طور پر نہیں ہوئیں اور نہ ہی انکوائری بورڈ کو سول ایوی ایشن کے قواعد و ضوابط کے حوالے سے کوئی معلومات تھیں۔

'انکوائری بورڈ کو ٹائم کا فرق بھی واضح نہیں تھا'

ہم نے اس حوال سے ایک اور پائلٹ سے بھی بات کی، جن کے امتحان کا وقت اور لاگ بک میں ان کی فلائٹ کا وقت بالکل ہی مختلف ہے مگر انکوائری بورڈ نے اس بنیاد پر ان کا لائسنس جعلی قرار دے دیا کہ 'پرچہ دینے کے فورا بعد اس پائلٹ نے اتنے کم وقت میں پرواز کیسے بھر لی۔'

مذکورہ پائلٹ کے مطابق: 'یہ غلط فہمی اس وجہ سے پیش آئی کیونکہ  انکوائری بورڈ کے ارکان کو پاکستان سٹینڈرڈ ٹائم (پی کے ٹی) اور کوورڈینیٹد یونیورسل ٹائم (یو ٹی سی) کا فرق واضح نہیں تھا۔'

پڑھنے والوں کی آسانی کے لیے بتاتے چلیں کہ پاکستان کا ٹائم، یو ٹی سی سے پانچ گھنٹے آگے ہے۔ یعنی اگر کوورڈینیٹد یونیورسل ٹائم کے مطابق دوپہر کے دو بج رہے ہیں تو پاکستان سٹینڈرڈ ٹائم چوںکہ پانچ گھنٹے آگے ہے، اس لیے اس کے مطابق یہاں شام کے سات بج رہے ہوں گے۔ 

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر مذکورہ پائلٹ نے بتایا کہ 'میں نے سات اپریل 2015 کو اپنا امتحان دیا جو پاکستانی وقت کے مطابق صبح نو بجے سے دوپہر 12 بجے تک تھا۔ امتحان کے بعد میں نے ایک فلائٹ لی جس کا وقت لاگ بک میں 1435 یو ٹی سی لکھا گیا تھا۔ انکوائری بورڈ 24 گھنٹوں کے ٹائم فارمیٹ کے تحت یہ سمجھی کہ میں نے پاکستانی وقت کے مطابق امتحان کے فوراً بعد ڈھائی بجے ہی اپنی فلائٹ میں سفر کیا ہے اور یہ وقت امتحان کے فورا بعد تیار ہو کر فلائٹ سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ایئرپورٹ پہنچنے کے لیے کافی نہیں، جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ میری فلائٹ پاکستانی وقت کے مطابق شام  سات بجکر 35 منٹ  پر تھی۔ اگر انہیں یوٹی سی اور پی کے ٹی میں فرق معلوم ہوتا تو ایسی غلطی نہ کرتے اور میرا لائسنس جعلی قرار نہیں دیتے۔'

پائلٹ ظاہر محمود نے اس کے علاوہ چند مزید چیزوں کی بھی نشاندہی کی ہے جن میں ان کے مطابق انکوائری بورڈ کی جانب سے غلطیوں کے باعث کئی پائلٹس کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بورڈ نے پائلٹس کی جانب سے ایک دن میں دیے گئے دو امتحانات، ہفتے کے روز دیے گئے امتحانات اور زبانی امتحانات کو یا تو غلط یا پھر پائلٹ کو اس میں غیر حاضر قرار دیا ہے۔

ظاہر کے مطابق اس لسٹ سے کئی پاکستانی پائلٹس کا کیریئر برباد ہوگیا ہے، اگر تحقیقات میں اب ان کا نام کلیئر بھی کردیا جائے گا تو دنیا بھر کی ایئر لائنز پر پاکستانی پائلٹس کا جو منفی تاثر گیا ہے، اسے درست کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان