ڈینی ڈویٹو کو کوئی خوف نہیں، اور اس وجہ سے وہ یہاں تک پہنچے ہیں

مورین ڈوڈ لکھتی ہیں کہ ڈینی ڈویٹو نے مشہور، امیر اشخاص کے کردار سے لے کر سیاستدانوں کی ترویج جیسے کردار ادا کرتے ہوئے کبھی بھی لطف اٹھانے میں کنجوسی نہیں کی

ڈینی ڈویٹو کی ناک سے ایک چمچ لٹک رہا ہے۔

وہ ہالی وڈ کلب ہاؤس کے کریگس ریستوراں میں قریبی میز پر عشایہ دینے والی خوبصورت خاتون کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں کامیابی مل رہی ہے کیونکہ وہ ہنسنے لگی ہیں۔

لیکن جینفر لوپیز کو دیر تک متوجہ رکھنے کے لیے محض چمچ کافی نہیں۔ جلد جینفر مڑ کر اپنی توجہ ایلکس روڈریگیز کی جانب کر لیتی ہیں۔

اگلی شام جب ڈینی سے انٹرویو کے لیے ملتی ہوں تو وہ وضاحت کرتے ہیں کہ وہ ان دونوں کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہتے تھے۔

ڈینی مسکراتے ہوئے کہتے ہیں ’نہیں جینفر کی آنکھیں روڈریگیز پر اس وقت ثبت تھیں۔ ہر کوئی یہی کر رہا تھا۔ یہ اچھا تھا۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی جینفر کے ساتھ دوستی ہے کیونکہ ان کی کمپنی جرسی فلمز نے ان کی بہترین فلم جس میں جارج کلونی بھی تھے ’آوٹ آف سائٹ‘ بنائی تھی۔

سوڈا اور چلی کی ڈش سی باس کے ساتھ کرین بیری جوس پیتے ہوئے وہ اپنے ’اٹس آلویز سنی ان فلیڈیلفیا‘ کرداروں کے برعکس کھانا کھاتے ہوئے کافی مہذب ہیں۔

وہ مجھے اپنے ٹی وی کی گرل فرینڈ کے ساتھ گاڑی میں سیکس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں ’وہ کافی سخت مزاج ہیں۔ مجھے بھی یہ تھوڑا بہت پسند ہے۔‘

ڈینی فرینک نامی اس کردار میں سات جان لیوا گناہوں کا مجموعہ ہیں لیکن پھر بھی مسحورکن ہیں۔    

اسبری پارک، نیو جرسی سے تعلق رکھنے والے ڈینی ڈویٹو 1978 میں ڈرامہ ٹیکسی کے پانچ سیزنز میں کرخت، اونچا بولنے والے لوئی ڈی پالما نامی کردار کی وجہ سے ٹی وی سٹار بنے اور اس سال وہ ’اٹس آلویز سنی ان فلیڈیلفیا‘ کے تیرہویں سیزن میں بھدا، اونچا بولنے والے فرینک کے طور پر ریکارڈ کروائیں گے۔

ٹائم میگزین نے انہیں ایک مرتبہ ’ٹنسل ٹاؤن کی چھوٹی دہشت‘ کا لقب دیا تھا (وہ اپنے آپ کو پانچ فٹ کا شخص کہتے ہیں)۔ ان کا بحثیت پروڈیوسر، ہدایت کار اور اداکار بڑے بجٹ کی فلموں اور کمپنیوں میں غیرمعمولی طور پر کیریر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں ٹم برٹن کی ڈمبو میں وہ بطور میکس میڈسی سامنے آ رہے ہیں۔ 1941 کی یہ ڈزنی کلاسک فلم اس ہفتے ریلیز ہونے والی ہے۔

ٹم برٹن، جنہوں نے ’ڈویٹو ٹرالوجی‘ – بیٹ مین ریٹنز، بگ فش اور اب ڈمبو کی ہدایت کاری کی، کہتے ہیں کہ ’ڈینی کی شخصیت اتنی اچھی ہے کہ آپ ان کے ارد گرد رہنا پسند کرتے ہیں۔ (ٹم کا کہنا ہے کہ اس فلم میں مقبول سرکس اور ایک پیارا چھوٹا ہاتھی بھی ہے۔ لیکن ناراض ہونے کی بات نہیں ہاتھی کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کیا گیا ہے۔ ’اسی وجہ سے بچپن میں سرکس کے متعلق میری رائے اچھی نہیں رہی۔‘)

ڈمبو میں کام کرنے والے مائیکل کیٹن کہتے ہیں کہ ڈینی کے 1992 کی فلم بیٹ مین ریٹرنز میں پینگوین کے کردار کی وجہ سے انہوں نے اپنی ٹریلر گاڑی کے باہر ایک باغیچہ لگا دیا جس میں دلکش جھاڑیاں، گملوں میں پودے، ایک کرسی اور میز موجود تھے جہاں وہ اپنی ’ڈینی، جرسی والے مذاق اور غیر مہذب کام کیا کرتے تھے۔‘

رابرٹ ڈی نیرو جو ڈینی کو جب وہ بیس کے پیٹھے میں تھے ایک گاؤں میں بارش کے دوران ملے تھے۔ اپنے ہم وطن اطالوی کی اتنی تعریف کی کہ انہوں نے برنکس ٹیل کی ہدایت کاری سے قبل ان سے مشاورت کی۔

یہ ڈینی کی جادوئی موجودگی کا اثر ہے کہ اپنے چھوٹے غیرمعمولی قد کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ انہیں بچپن میں کبھی ڈرایا نہیں گیا۔ پہلی مرتبہ جو وہ ٹیکس میں ڈسپیچر کے جنگلے سے نکلتے ہیں تو ناظرین بےساختہ ہنس پڑتے ہیں کیونکہ ان کا قد ان کے کردار کے اعتماد اور جارحیت سے یکسر مختلف ہے۔   

ڈینی کہتے ہیں کہ ان کی بڑی بہنیں اینگی اور ٹریزا نے ان میں پراعتمادی بھری۔ اینگی انہیں اپنے سیلون میں لائیں اور بال بنانا سیکھایا۔ انہیں پیار سے ’مسٹر ڈان‘ کا نام دیا گیا۔

’وہ مجھ سے پیار کرتی تھیں۔ وہ مجھ سے ایک چھوٹے شہزادے کی طرح سلوک کرتی تھیں۔‘

ایک پادری کا سابق معاون اسے اس کے دوست تاسمینیا کان شیطان کہتے تھے۔ ایک پرانے دوست اور روم میٹ مائیکل ڈگلس کہتے ہیں کہ ’انہیں کوئی خوف نہیں۔ وہ مزاحیہ انداز میں کوئی چانس بھی لے لیں گے اور انہیں اندھیرا پسند ہے۔‘

ڈینی دو مرتبہ فلموں میں ننگے بھی ہوئے۔ ایک مرتبہ بگ فش میں جب ایک رنگ ماسٹر ایک لومڑ سے انسان میں تبدیل ہوجاتا ہے، اور ایک مرتبہ آلویز سنی میں جب وہ چمڑے کے صوفے سے گریس لگی مچھلی کی طرح نکل آتے ہیں جہاں وہ چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔

’میں کوئی ویلیم ڈافو نہیں ہوں۔ لیکن میں کپڑے اتارنے میں پیچھے نہیں ہوں۔‘

میں انہیں بوسٹن میں ایک نوجوان کے بارے میں بتاتی ہوں کہ وہ اتنا بڑا مداح ہے کہ اس نے 1996 میں شیوی لومینا وین خرید کر اسے وینی ڈویٹو نام دے دیا۔ انہوں نے اسے ٹانگ پر ٹیٹو بھی کیا اور ملک بھر کی سیر کے دوران ڈینی کے چہرے کے بمپر سٹیکر تقسیم کیے۔

ڈینی کچھ زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔ ’اوہ اچھا۔ مجھے یہ باتیں معلوم ہیں۔ یہ ہر جگہ ہیں۔ ایک لڑکی مجھے گذشتہ برس میرے کارڈ کے بنے پتلے کے ساتھ اپنے پروم میں لے گئی۔ میں اس کی ڈیٹ تھا۔ مجھے یہ سب پسند ہے۔

’آپ کو معلوم ہوگا کہ میں نے ایک مرتبہ فلم کی تھی ’دی وین‘۔ یہ ایک کم بجٹ والی وین کے اندر بنی فلم تھی۔‘

سنی پرچیز میں ایک یونیورسٹی طالب علم نے جب مردوں کے بیت الخلاء میں ردی سے ڈینی پلیٹ فارم گذشتہ برس تیار کیا تو ڈینی نے ٹویٹ کیا: ’آپ کا مزار مجھے عزت دیتا ہے۔ میرا دل محبت اور ردی سے بھر گیا ہے۔‘

وہ اپنے ٹرال فٹ کی وجہ سے میمز کے  سردار ہیں جس میں ان کے دائیں پاؤں کی تصاویر، ساحل پر وائن پیتے ہوئے اور گذشتہ برس لاس اینجلس پریڈ کے ایک فلوٹ پر ان کے پروں والے سکارف سے میچ کرنے کے لیے قوس قزح کےرنگوں سے پینٹ کیا ہوا ہے۔

وہ یاد دلاتے ہیں کہ ان کی پہلی ٹویٹ تھی: ’میرے نٹس کو آگ لگی ہوئی ہے۔ اور پھر میں کیا کروں گا؟ لہذا میں نے اپنے پاؤں کی تصویریں لینا شروع کیں اور انہیں آن لائن لگانے لگا۔‘  

ڈینی کئی مقبول فلموں میں ہیں: ایل اے کانفیڈینشل، ٹن مین، گٹ شارٹی، ٹوینز، روتھلیس پیپل، مین آن دی مون، رومینسنگ دی سٹون، ٹرمز آف انڈیرمنٹ، ون فلیو اور دی کوکوز نیسٹ، مٹلڈا اور وار اف دی روزز، جس کی انہوں نے خود ہدایت کاری بھی کی۔ انہوں نے کئی بنائیں بھی جن میں گٹاکا اور ایرن بروکوویچ شامل ہیں۔

انہوں نے خود کو منوانے کوشش میں مصروف ایک فلم ساز سے 1990 میں ایک سکرپٹ خریدا کیونکہ انہیں اس نوجوان کی پہلی فلم پسند آئی تھی۔ ’ایک سال بعد – اور یہ ایک لمبا سال تھا – وہ بل آخر 155 صفحات کے ساتھ نمودار ہوا۔ اس کا عنوان تھا پلپ فکشن بائے کوینٹن ٹرنٹینو: حتمی مسودہ۔ میں ایک کرسی میں بیٹھا اور میں نے اسے پڑھا اور میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔‘

میں نے انہیں بتایا کہ ڈمبو کا ٹرمپ کے دور میں آنا اچھا وقت ہے جب سرکس، کلاؤن اور کمرے میں ہاتھی کی اصطلاح معمول ہیں۔ ڈینی نے خود صدر اور ڈیموکریٹس کو ’کلاؤن‘ قرار دیا ہے۔

ڈینی ایموکریسی ناؤ کو سنتے ہیں اور ذیموکریسی ان چینز: ریڈیکل رائٹ کا امریکہ کے لیے سٹیلتھ منصوبہ پڑھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ برنی سانڈرز کے لیے جیسا کہ انہوں نے 2016 میں کیا انتخابی مہم چلائیں گے اور وہ چاہیں گے کہ وہ تولسی گبارڈ کے ساتھ مل کر یہ انتخاب لڑیں۔

انہوں نے کبھی کبھار رومانوی کردار بھی ادا کیا ہے لیکن وہ ولن سے محبت کرتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اگر بچے انہیں گلی میں دیکھیں اور ڈر جائیں کہ وہ تو مٹلڈا کے برے باپ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ اچھا ہے۔ ماں اکثر کہتی ہے یہ ٹھیک ہیں، وہ آپ کو تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پینگوین بننا سب سے بہترین رہا باوجود اس کے کہ ایک بندر سیٹ پر بےقابو ہوگیا اور ’مجھے پر جھپٹ پڑا۔ یہ انتہائی خوفناک صورتحال تھی۔ انہیں اسے ان سے جدا کرنا پڑا۔‘

چوہتر سال کی عمر میں ڈینی پرلمین، ان کی 37 سالہ بیوی سے علیحدہ ہوچکے ہیں اور اپنا وقت لاس اینجلس میں ایک مکان اور نیو یارک میں ایک اپارٹمنٹ میں گزارتے ہیں۔ ’میں سب سے ملتا ہوں۔ میں بچوں سے ملتا ہوں بس میں الگ رہتا ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ انہوں نے ٹینڈر ایپ چیک نہیں کی ہے مگر کہا کہ ’میں نابلد افراد کے رحم پر انحصار کرتا ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک اچھی کہانی کی تلاش میں ہیں۔ ’اور ایک اچھی کتاب۔ ایک اچھا سکرین پلے، ان لوگوں کے ساتھ کام کریں جن کے ساتھ آپ کرنا چاہیں۔ ڈنر پر جائیں۔ چھٹیوں پر جائیں۔ اچھا وقت گزاریں۔ ہاں، کوئی تناؤ نہیں۔ ووٹ برنی سانڈرز۔‘

میں نے ڈینی سے پوچھا جو دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے باپ ہیں کہ آیا می ٹو مہم کے نتیجے میں ہالی وڈ تبدیل ہوا ہے یا نہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ ’جو واحد چیز میں دیکھ سکتا ہوں کہ میں نے اس بارے میں عورتوں سے بات کی ہے اور جو مجھے ملا وہ چار لفظ ہیں: عورتوں کو سنا جائے۔ یہ میرا طریقہ ہے۔ کیا یہ پانچ الفاظ ہیں؟ نہیں، چار الفاظ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ میں روزانہ اپنے ایجنٹ سے جادوئی الفاظ کہتا ہوں: میرے لیے کام ڈھونڈیں۔‘

کیا سٹوڈیو کے سردار اس مہم کے کمزور ہونے کا انتظار کر رہے ہیں؟

’ہم سب عورتیں ہیں جو ووٹ کے حق کے لیے احتجاج کرتی تھیں۔ ہمیں عورتوں کو برابر تنخواہ دینا ہوگی، ہمیں ان پر ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے ہاں اگر وہ اس کی درخواست کرتی ہیں تو پھر نہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ہالی وڈ میں چلتے رہنے کا ایک ہی بہترین طریقہ ہے کہ ہم پاگلوں اور بغیر ٹیلنٹ کے لوگوں پر، عدم تحفظ پر توجہ نہ دیں۔ ’میں چنگل میں چہل قدمی پسند کرتا ہوں۔ آپ ہر قسم کی آوازیں سنتے ہیں۔ کسی پودے کی دوسری جانب کسی کو کھایا جا رہا ہے لیکن آپ اپنے راستے پر رہتے ہیں۔‘

ہمارے جانے سے قبل ڈینی مجھے ناک سے چمچ لٹکانا سیکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ’پہلے اسے صاف کرو۔ اس پر سانس لیں۔اس کا کنڈینسیشن سے کوئی تعلق ہے۔‘

میں انہیں بتاتی ہوں کہ میں انہیں شاید برنی سانڈرز کے ساتھ سڑکوں پر دیکھوں گی۔

خدا حافظ کہتے ہوئے انہوں نے کہا ’ان میں لمبے وہ ہوں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین