کوئٹہ: 73 سال بعد سکھ برادری کو عبادت گاہ مل گئی

جسبیر سنگھ کے مطابق یہ گرودوارہ کچھ مرمت کے بعد ڈیڑھ ماہ پہلے عبادت کے لیے کھول دیا گیا تھا مگر تاحال اس کی باقاعدہ اوپننگ ہونا باقی ہے۔

کوئٹہ شہر کے وسط میں قائم اس عمارت کے بارے میں شاید ہی کسی کو علم ہوگا کہ یہ ایک گرودوارہ تھا (تصاویر: انڈپینڈنٹ اردو)

اس گلی سے گزرتے وقت کچھ عرصہ قبل اس عمارت سے تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں کی آوازیں گونجتی تھیں اور اس کے در و دیوار بھی اس سے مانوس ہوچکے تھے لیکن یہ عمارت اصل میں سکھ کمیونٹی کی عبادت گاہ ہے جسے قیام پاکستان کے بعد سکول میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

کوئٹہ شہر کے وسط میں قائم اس عمارت کے بارے میں شاید ہی کسی کو علم ہوگا کہ یہ ایک گرودوارہ تھا جسے اب دوبارہ سکھ برادری کے حوالے کر دیا گیا ہے اور یہاں باباگرونانک کے ماننے والوں کا تانتا بندھ رہتا ہے۔

گرودوارہ کی حوالگی کے لیے جدوجہد کرنے والی سکھ برادری کے سربراہ سردار جسبیرسنگھ عمارت کو گرودوارے میں تبدیل ہونے پر خوش ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام اقلیتی برادری کے تحفظ کے لیے بھی اہم قدم ہے۔

جسبیر سنگھ کے مطابق یہ گرودوارہ کچھ مرمت کے بعد ڈیڑھ ماہ پہلے عبادت کے لیے کھول دیا گیا تھا مگر تاحال اس کی باقاعدہ اوپننگ ہونا باقی ہے۔

ان کے بقول بلوچستان میں سکھ برادری کے لیے کوئی گرودوارہ موجود نہیں ہے۔ ’جب کبھی بیرون ملک سے کوئی سکھ برادری کا وفد یہاں آتا تو ہمیں بڑی مشکل پیش آتی تھی جو اب حل ہوگئی ہے۔‘

واضح رہے کہ قیام پاکستان سے قبل کوئٹہ میں سکھ برادری کی ایک بڑی تعداد آباد تھی اور یہاں پر آج بھی اکثر شاہراہوں کے نام انہی سکھوں کے نام پر ہیں جن میں گرودت سنگھ روڈ، چوہڑ مل روڈ وغیرہ شامل ہیں۔

جسبیر سنگھ کے مطابق یہ گرودوارہ ایک اندازے کے مطابق تقریباً دو سو سال پرانا ہے اور بلوچستان میں 12 ایسے مندر اور گرودوارے ہیں جن کو سرکاری عمارتوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔

انہوں نے گرودوارے کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی جس پر عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے عمارت کو سکھ برادری کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔

سکھ برادری کے اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان میں سکھوں کی تعداد 2 ہزار ہے اور جو بابا گرونانک کے ماننے والے جنہیں اداسی پنت کہا جاتا ہے وہ 20 ہزار کے قریب ہیں

جسبیر سنگھ کے مطابق ’اب ہماری کوشش ہے کہ ایک گرودوارہ جو ضلع زیارت میں ہے جس کی حالت بھی خستہ ہے اور ایک ضلع سبی میں ہے اسے بھی ہمارے حوالے کر دیا جائے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل بلوچستان کے ضلع ژوب میں بھی ایک قدیم مندر جسے سکول میں تبدیل کیا گیا تھا اسے بھی ہندو برادری کے حوالے کیا گیا ہے۔

ادھر سکھوں کی کوئٹہ میں آبادی اور ان کے رہن سہن کے حوالے کوئٹہ کی رہائشی جو اب بھارت میں موجود رینا نندا کی کتاب ’فرام کوئٹہ ٹو دہلی،پارٹیشن سٹوری‘ میں معلومات ملتی ہیں۔

رینا نندا اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ کوئٹہ میں ’ہمارا خاندان  جھنگ سے آکر آباد ہوا اور یہاں پر ان کے دادا کا شمار اشرافیہ میں ہوتا تھا، یہاں پر موجود سکھ بڑی خوشحال زندگی گزار تے رہے۔‘

کتاب میں رینا نندا لکھتی ہیں کہ جب قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو ان کے دادا رائے صاحب ساون مل ملک نے کہا کہ ’ہم یہاں ہی رہیں گے لیکن جب بلوائیوں کے حملے شروع ہوئے تو سب کچھ تبدیل ہوگیا۔‘

’کوئٹہ میں  ہندو اور سکھ تاجروں کی بڑی تعداد جنہوں نے سالوں کی محنت کے بعد قیمتی جائیداد بنائی تھی نے بھی فیصلہ کیا تھا کہ وہ یہاں ہی قیام کریں گے لیکن 14 اگست 1947 کی شام جب شہر کی اشرافیہ براؤن جیم خانہ کلب میں جمع تھی اس دوران شہر میں اقلیتی برادری کے املاک پر حملے شروع ہوگئے جس نے میرے داد ا کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا۔‘

رینا نندا کی کتاب میں کوئٹہ کی خوبصورتی اور یہاں کی شاہراہوں کے تذکرے بھی ملتے ہیں اور خصوصا وہ کوئٹہ شہر کی مشہور سڑک ٹھنڈی سڑک کا تذکرہ بھی کرتی ہیں جس کے دونوں اطراف درخت لگے ہیں لیکن اب یہ سڑک ریڈ زون میں شامل ہو کر عام لوگوں کے لیے بند کر دی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سردار جسبیر سنگھ کے مطابق یہ عمارت جب ’ہمارے حوالے کی گئی تو اس میں مرمت کا کام تو تھا لیکن اس کے  اندرونی حصے کو نہیں چھیڑا گیا باقی ہم نے اسے خود اصل حالت میں بحال کیا۔‘

بلوچستان کے ضلع قلات میں ہندو برادری کا کالی ماتا کا مندر اور ہنگلاج ماتا کا مندر جو ضلع لسبیلہ میں واقع ہے کو بھی مقدس مانا جاتا ہے۔ 

کوئٹہ کے اس گرودوارے میں اب نہ صرف سکھ عبادت کے لیے آتے ہیں بلکہ بابا گرونانک کے ماننے والے ہندو برادری کے بوڑھے، جوان، بچے بھی آ رہے ہیں۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا