اپوزیشن کی مشکلات، عمران خان کی خوش قسمتی

پیپلز پارٹی اور جے یو آئی حکومت کو جلد از جلد گرانے کی خواہش مند ہیں جبکہ مسلم لیگ ن نئے انتخابات کے لیے حکومت کو مزید وقت دینے اور عوام میں اس کی ساکھ کو مزید خراب کرنے کی خواہش مند ہے۔

بلاول بھٹو زرداری آج کل سیاسی طور پر متحرک اور اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں (سکرین گریب)

عمران خان کی حکومت کا ’ہنی مون پیریڈ ختم ہوچکا ہے۔ اپوزیشن کے کم و بیش تمام متحرک رہنما قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر کے رہائی پا چکے ہیں اور اب حکومت سمیت نیب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہے ہیں۔

عدلیہ بھی ثاقب نثار والی مبینہ طرف داری کی کیفیت سے باہر آ چکی ہے اور اب ایک طرف جسٹس وقار سیٹھ سابق آمر کو سزائے موت اور ان کی لاش کو لٹکانے جیسے غیرمعمولی فیصلے کر رہے ہیں تو دوسری طرف سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے۔

حکومت کے لیے لیکن سب سے مشکل عدالتی فیصلہ خواجہ سعد رفیق کیس میں نیب کے خلاف درج تفصیلات ہیں جس نے دو سال سے جاری نیب حکومت مبینہ گٹھ جوڑ کو نہ صرف واضح کیا بلکہ نیب کے چیئرمین اور ان کے بعض فیصلوں کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگا دیے۔

حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد نیب اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کا اخلاقی جواز کھو چکی ہے۔ اور یہ فیصلہ حکومت کے لیے اس وجہ سے بھی باعث تشویش ہے کہ انتہائی ناقص طرز حکمرانی، ڈوبتی معیشت، دہری شہریت والے وزرا و مشیران،  چینی، ادویات، پیٹرول اور آٹا سکینڈلز، پی آئی اے کی تباہی روزانہ کے حساب سے بڑھتی مہنگائی، اہم ترین صفحے کی گمشدگی اور اتحادیوں کی ناراضی کے بعد حکومت کے پاس اپنے آپ کو برقرار رکھنے کا واحد حل پولیٹکل انجینیرنگ ہی رہ جاتی ہے۔

نیب کے چیئرمین پر کئی الزامات عائد ہوچکے ہیں اور وہ متنازع بن چکے ہیں۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے نے قوم کو بتا دیا کہ حقائق کیا ہیں۔ اس کے باوجود بھی اگر حکومت اور نیب اپنی من مانیاں جاری رکھتے ہیں تو متاثرین بہت آسانی کے ساتھ اعلیٰ عدالتوں سے انصاف حاصل کر سکیں گے۔

اپوزیشن کے لیے اس سے بہتر کوئی موقع نہیں کہ وہ متحد ہو کر حکومت کے ناراض اتحادیوں کو ساتھ ملایں اور حکومت کو چلتا کر دیں۔ لیکن یہاں پھر عمران خان کی خوش قسمتی آڑے آتی ہے۔ ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی موجودہ حکومت کو گرانے سے زیادہ مستقبل میں ملنے والے ممکنہ کردار میں بظاہر دلچسپی رکھتی ہے۔

پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ اپوزیشن متحد ہو کر عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت کو چلتا کر دے۔ اس طرح انہیں موجودہ اپوزیشن کی ممکنہ مرکزی حکومت میں بھی حصہ بقدر جسہ مل جائے گا اور ان کی سندھ حکومت بھی برقرار رہے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیپلز پارٹی 2023 سے پہلے سندھ حکومت کو کھونا نہیں چاہتی ہے اس لیے وہ نئے انتخابات کی بجائے ان ہاؤس تبدیلی کی خواہش مند ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن پنجاب میں مسلم لیگ ق کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے لیے تو ذہنی طور پر تیار ہے مگر وہ موجودہ تباہ حال معیشت اور سیاسی عدم استحکام میں بےساکھیوں کے سہارے مخلوط اور کمزور مرکزی حکومت  لینے کو تیار نہیں۔

ان کا مطالبہ ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام اور بھرپور فیصلوں کے لیے عوام سے نیا مینڈیٹ لینا ضروری ہے۔ انہیں یقین ہے کہ نئے مگر آزادانہ انتخابات کی صورت میں مسلم لیگ ن پنجاب اور مرکز میں مضبوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی جبکہ پختونخوا میں بھی جے یو آئی یا اے این پی کے ساتھ مل کر وہ اقتدار کا حصہ بن سکتی ہے۔

مختصر یہ کہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی حکومت کو جلد از جلد گرانے کی خواہش مند ہیں جبکہ مسلم لیگ ن نئے انتخابات کے لیے حکومت کو مزید وقت دینے اور عوام میں اس کی ساکھ کو مزید خراب کرنے کی خواہش مند ہے۔

مسلم لیگ ن کی جانب سے پیپلز پارٹی کی ہاں میں ہاں نہ ملانے کی ایک وجہ صرف دو سال پہلے زرداری صاحب کے مفاد پرستانہ فیصلے بھی ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف مسلم لیگ کی بلوچستان حکومت ختم ہوئی، رضا ربانی کی بجائے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بن گئے بلکہ اپوزیشن کی تقسیم کی وجہ سے پی ٹی آئی کے عارف علوی عہدہ صدارت پر بھی جلوہ افروز ہوئے۔

پی ٹی آئی کے حامیوں کو یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی سیاسی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ جس دن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی سوچ میں تبدیلی آئی ان کا سفر مزید کٹھن ہوسکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ