پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے حوالے سے حالیہ بیانات، اپوزیشن کی تنقید، سفارتی حلقوں سے مختلف آرا سامنے آنے پر وزیر خارجہ کے یو ٹرن لیکن دبے لفظوں میں دیے گئے عندیے سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ پاکستان اس سال کشمیر کے لیے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کرے گا اور اس حوالے سے وزیر خارجہ بھی اپنے بیانات میں عندیہ دے چکے ہیں کہ 'چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا لیکن کشمیر کے معاملے پر پاکستان کو کسی بھی فورم پرجانا پڑے تو جائیں گے۔'
پاکستان نے ترکی اور ملائشیا کے ساتھ مل کر گذشتہ برس کوالالمپور سربراہ اجلاس کی منصوبہ بندی کی لیکن پاکستان نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس کے بعد رواں برس فروری میں وزیراعظم عمران خان نے جب ملائشیا کا دورہ کیا تو انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ کانفرنس میں شرکت نہ کر سکے۔
انہوں نے کہا تھا کہ شرکت نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے کچھ دوستوں کو لگتا تھا کہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کرنے سے اُمت مسلمہ میں تقسیم پیدا ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ یہ صرف ایک غلط فہمی تھی اور کوالالمپور سمٹ کا مقصد تقسیم نہیں بلکہ امت کو متحد کرنا تھا۔ انہوں نے ملائشیا کے سربراہ مملکت کو یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ اگلے برس ہونے والی کانفرنس میں وہ ضرور شرکت کریں گے۔
کشمیر پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے حکومتی نمائندوں سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے اہم اراکین سے ان کی رائے لی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحریک انصاف سے منسلک پارلیمانی سیکرٹری برائے خارجہ امور عندلیب عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان کشمیر کے لیے اب صرف او آئی سی کے فورم تک محدود نہیں رہے گا۔ ان کے مطابق کشمیر پر پاکستان کی خارجہ پالیسی بہت واضح ہے۔ 'اب کشمیر کے لیے ہم ہر فورم پر جائیں گے چاہے وہ فورم مشرق وسطیٰ میں ہو یا ایشیا میں ہو، جو فورم موثر لگے گا اس کا استعمال کریں گے۔'
سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'او آئی سی ایک بے معنی تنظیم ہے جو مسلمانوں کے مقاصد کی تکمیل نہیں کر رہی چاہے وہ فلسطین ہو یا میانمار کے مسلمان ہوں۔'
انہوں نے کہا کہ کشمیر کےمعاملے پر بھی او آئی سی خاموش ہے۔ سابق وزیر خارجہ نے او آئی سی کے معاملے پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کےبیان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ مسلم امہ کو دوبارہ فعال کرنے کی ضرورت ہے اور جو ممالک زیادہ فعال کردار ادا کرسکیں اور جو سپر پاور کے اثر سے آزاد ہوں ان کو اس بارے میں سوچنا چاہیے ۔
خواجہ آصف نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں ملکی مفاد کا بھی تخفظ کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا: 'سعودی عرب ہمارا دیرینہ ساتھی ہے جس نے ہمیشہ پاکستان کا مشکل میں ساتھ دیا ہے۔ لیکن اگر ہم آزاد خارجہ پالیسی بنانا چاہیں تو اس میں حرج بھی کوئی نہیں ہے۔ چین اور روس کے ساتھ، خطے میں موجود دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ خارجہ پالیسی مضبوط کی جا سکتی ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'پاکستان کی سب سے بڑی کمزوری معیشت ہے۔ جس کی وجہ سے ہم کچھ ممالک کے تابع ہوجاتے ہیں۔ اگر پاکستان کی معیشت مستحکم ہو گی تو آزاد خارجہ پالیسی بن سکے گی۔'
اپوزیشن میں پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی نفیسہ شاہ نے کہا کہ 'موجودہ حکومت نے پہلے ملک کو شرمندہ کیا اور ترکی ملائشیا کے ساتھ جس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا اس میں تو شرکت نہیں کی لیکن اب سعودی عرب کو دھمکیاں دے رہے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔ '
انہوں نے کہا کہ حکومت کے ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات ملک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی رحمٰن ملک نے کہا: 'کشمیر کے معاملے پر موجودہ وزیر خارجہ مسلم امہ کا تعاون حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آٹھ مسلمان ممالک کا گروپ بنانا تھا جو کشمیر کے معاملے پر ہمارا ساتھ دیتا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس لیے او آئی سی کے ساتھ یا او آئی سی کے بغیر کا آپشن دیا گیا ہے۔‘