اب کشمیر کا امیر کارواں کون؟

’ہمیں کب کیا کرنا ہے کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے ہم جانتے ہے کہ ہمارا یوم سوگ کب ہے، یوم تشکر کب ہے اور ہڑتال کب ہوگی۔ اس کے لیے کسی کو لیڈر  کے طور پر ظاہر کرنے کی ضرورت اب پیش نہیں آتی۔‘

عمران خان اور عمر  عبداللہ دہلی میں 2004 میں ایک کانفرنس کے دوران (اے ایف پی)

کشمیر کے اندرونی اور بیرونی سیاسی حلقوں میں آج کل لیڈرشپ کا موضوع اہمیت کا حامل بنا ہوا ہے۔ سوال کیا جا رہا ہے کہ کشمیر کی موجودہ تحریک کا امیر کارواں کون ہے؟

بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کشمیر میں قیادت کا خلا جان بوجھ کر پیدا کیا گیا ہے تاکہ بھارت چند بھگوڑوں کو جمع کر کے پھر 1953 کے حالات دہراے جب شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے بعد بخشی غلام محمد کو ریاست پر مسلط کر کے کافی عرصے تک عوام کو خاموش کر دیا گیا تھا۔

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

بھارت نے مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں سے زیادہ تر ایک کام کروایا۔ آزادی پسند رہنماؤں کو جیلوں اور گھروں میں محصور کرنا،  تحریک حریت کو سرے سے مٹانا اور اس کے عوض  طاقت، رشوت اور اقربا پروری کی پالیسیوں پر گامزن رہنا۔ ایسے بھی سیاست دان جموں و کشمیر میں نظر آئیں گے جو سمجھتے تھے کہ وہ ناقابل تسخیر شے بن گئے ہیں اور انہوں نے غریبوں کا خون چوسنے کا تاحیات لائسنس حاصل کر رکھا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے جب بھارت نے تمام مین سٹریم پارٹیوں کے قائدین کو پابند سلاسل کر دیا اور عوام میں ان کی ساکھ کو ختم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھا۔ نتیجہ یہ کہ ایک سال کی سیاست میں رہنے کے بعد ہی ڈاکٹر شاہ فیصل نے سیاست سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔

عام رائے یہ ہے کہ اسیری کے دوران ان کی خوب 'برین واشنگ' کی گئی تاکہ ان سے متحرک ہونے والے نوجوانوں کو پیغام دیا جائے کہ کشمیر میں وہی سب کچھ ہوگا جو بھارت کی منشا ہوگی۔  ان کی پارٹی سے وابستہ ایک نوجوان رہنما امیر حسین کہتے ہیں ’میں نے پیش گوئی کی تھی کہ وہ کشمیر کے عمران خان بنیں گے لیکن انہوں نے مودی بننے کو ترجیح دی۔‘

جہاں اکثر بھارت نواز رہنما ان کے جانے پر خوش ہیں وہیں ان کی پارٹی میں شمولیت کرنے والے نوجوانوں نے ان کے فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوے کہا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ فیصل عوام کے جائز حقوق کی لڑائی لڑیں گے لیکن وہ اتنے ڈرپوک نکلے کہ اجیت دول کے دربار میں حاضری دینے کے لیے دہلی کا بار بار رخ کرتے رہتے ہیں۔

کشمیر کی سیاست میں کئی اہم موڑ آئے ہیں۔ ایک بدترین موڑ وہ تھا جب شیخ عبداللہ کو لمبی اسیری کے بعد وزیر اعلیٰ بننے پر آمادہ کر دیا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ کشمیر مسئلے کو ہمیشہ کے لیے دفنا دیا گیا ہے لیکن سن نوے کی عسکری تحریک نے اس کو غلط ثابت کر دیا۔ کسی کو اس وقت بھی بھنک نہیں پڑی تھی کہ تحریک کا اصل امیر کون ہے اور عسکریت کا خیال کشمیریوں کو کیسے آیا تھا۔

بھارت کے رڈار پر پہلے علیحدگی پسند رہنما رہے ہیں اور گذشتہ چند برسوں سے ان تنظیموں سے وابستہ بیشتر لیڈروں کے خلاف اتنا پروپیگینڈا کروا دیا گیا کہ تحریک کے حامی عوامی حلقوں میں ان کے کردار، ان کی جائیداد اور ان کی اولادوں کی سرکاری مراعات حاصل کرنے پر سوالات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ اگرچہ بیشتر رہنماؤں نے جوابات دینے کی بجائے خاموشی اختیار کی ہے لیکن عوامی ذہنوں میں شکوک و شبہات نے ہمیشہ کے لیے گھر کردیا ہے۔ جب حال ہی میں سید علی شاہ گیلانی کی جانب سے بعض بیانات جاری ہوئے جن سے حریت کانفرنس میں میڈیکل سیٹوں اور بددیانتی کی شکایات کی تصدیق ہوتی ہے تو لوگ بعض رہنماؤں کی ذاتی جائیدادوں کا حساب کرنے کے بعد مایوسیوں کاشکار ہونے لگے ہیں۔

بقول ایک صحافی ’ایک حریت لیڈر نے اپنے گھر کی تعمیر پر چھ کروڑ روپے خرچ کیے اور وہ جس شان سے رہتے ہیں ان کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ راجے مہاراجے کیسے رہتے ہوں گے۔‘

یہ بھی حقیقت ہے کہ بیشتر رہنما قلیل آمدنی کے سہارے زندگی چلاتے ہیں جبکہ بندوق بردار زیادہ تر غریب گھروں سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ لوگوں کو بعض بندوق بردار نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد ان کی مفلسی کا اندازہ ہوا۔

چند برس پہلے میں نے دوبئی کے برج خلیفہ ٹاور کو دیکھنے کی ہمت کی مگر ٹاور کے بیچ والے کچھ فلیٹس میں اندھیرا تھا اور بجلی بند پڑی تھی۔ میں نے جب اپنے کشمیری میزبان سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے کہ بیچ والے یہ سارے فلیٹس کشمیری مین سٹریم لیڈروں کے ہیں اور انہوں نے ان رہنماؤں کے نام بھی بتا دیے۔ میں نے پھر پوچھا کہ بجلی کیوں بند رکھی ہے؟ وہ خوب ہنسے اور کہنے لگے کہ ’دوبئی کشمیر تھوڑی ہے کہ بجلی کا بل کسی اور سے ادا کروائیں گے یا فیس نہیں دیں گے۔ پیسے بچانے کی فکر میں ٹاور کی انتظامیہ سے ان فلیٹس کی بجلی بند رکھوائی ہوگی۔‘ میں اس کی تصدیق تو نہیں کرسکتی کہ فلیٹس واقعی کشمیری رہنماؤں کے ہیں یا نہیں مگر بیشتر لیڈروں کے پاس اتنی جاگیریں ہیں کہ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ اس سال پانچ اور 15 اگست پر کشمیر میں قدرے خاموشی دیکھی گئی حالانکہ پوری وادی میں خاموش احتجاج کو ہر کوئی محسوس کرسکتا ہے۔ جس کی وجہ بقول ایک صحافی ’لیڈرشپ کا فقدان ہے اور عوام کو سمت دینے والا کوئی نہیں۔‘

  خاموشی اختیار کرنے کی میں دو وجوہات سمجھتی ہوں۔ ایک یہ کہ بیشتر آبادی کے لیے دفعہ 370 کو رکھنا یا نہ رکھنا بےمعنی ہے کیونکہ وہ بھارتی آئین کو ہی نہیں مانتے ہیں لہذا وہ سمجھتے ہیں کہ آئین میں ردوبدل کرنے سے تحریک آزادی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مین سٹریم سے جڑی چند فیصد آبادی ضرور آواز اٹھاتی یا مظاہرے کرتی مگر ریاست میں سکیورٹی اداروں نے غیرمعمولی پہرے بٹھائے ہیں وہ چاہے میڈیا ہو، سوشل میڈیا ہو یا سڑکوں پر نقل حمل ہو یا مذہبی مقامات پر اکٹھے ہونا ہو اس وجہ سے لوگوں نے گھروں کے اندر محصور رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی ہے۔

اس کے برعکس اس سال پاکستان نے جس بڑے پیمانے پر شہروں اور دیہات میں، میڈیا یا سوشل میڈیا پر، پارلیمان یا سفارتی اداروں میں آواز اٹھائی اس کو عوام نے ماضی کے مقابلے میں غیرمعمولی طور پر کشمیر کے حالات پر اجاگر کرنے کا ایک بہترین طریقہ بتایا۔ حالانکہ بھارت نے ہرممکن کوشش کی کہ ان سرگرمیوں کی بھنک کشمیریوں تک نہ پہنچے۔

پھر یہ سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ اگر کشمیر میں تمام لیڈر جیلوں میں محبوس ہیں، عوام کی نقل و حرکت پر پابندی ہے، لیڈرشپ کا فقدان ہے، تو تحریک چلانے کا کام کس کے ذمے ہے؟ پانچ یا پندرہ اگست کو ہڑتال کس نےکرائی یا چودہ اگست کو بعض مقامات پر پاکستانی پرچم کس نے لہرائے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکیورٹی کے اتنے سخت پہروں میں یہ کیسے ممکن ہوا؟  ظاہر ہے اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو کشمیر کے چپے چپے سے واقف ہیں اور پہروں کے باوجود نہ صرف زندگی گزارنے کے عادی بن چکے ہیں بلکہ جذبات کا اظہار کر نے کے طریقے بھی سیکھ گئے ہیں۔

اقبال راتھر (سکیورٹی کی وجہ سے نام بدل دیا ہے) تحریک کے سرکردہ کارکنوں میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے بچپن سے جموں و کشمیر کی مکمل آزادی کا خواب پالا ہے۔ بندوق بردار بھی رہ چکے ہیں، جیلوں میں کئی برس گزار چکے ہیں، عسکری بیٹے اور بھتیجے سے محروم بھی ہوچکے ہیں۔ آج کل زمینداری سے گھر کا خرچہ چلاتے ہیں۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ لوگ کیا خود ہڑتال کرتے ہیں یا پرچم لہراتے ہیں یا پس پردہ ہے کوئی جو سب کو متحرک کرتا ہے؟

’دراصل کشمیر کی مٹی میں تحریک آزادی کا جذبہ اتنا رچ بس گیا ہے کہ اگر ایٹم بم گرا کر اس کو ریگستان بھی بنایا جائے تب بھی کہیں نہ کہیں جذبہ آزادی کا گل لالہ پھوٹ کر ہم کیا چاہتے آزادی کا نعرہ بلند کرے گا۔‘ ہماری لڑائی 1580 سے شروع ہوگئی ہے اور ہوسکتا ہے کہ مزید پانچ صدیوں پر یہ جدوجہد محیط رہے مگر آزادی ہماری آخری منزل ہے۔ اس خواب کی تعبیر کے لیے فی الحال ہمارے امیر کارواں عمران خان ہیں جو اس کردار کو بخوبی نبھا رہے ہیں۔ عوامی حلقے ان کے کشمیریوں کے سفارت کار بننے اور پرامن جدوجہد چلانے کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔ دور سے ہی سہی انہوں نے اس قوم کو ایک نئی سمت دینے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ ہمیں کب کیا کرنا ہے کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے ہم جانتے ہے کہ ہمارا یوم سوگ کب ہے، یوم تشکر کب ہے اور ہڑتال کب ہوگی اس کے لیے کسی کو لیڈر  کے طور پر ظاہر کرنے کی ضرورت اب پیش نہیں آتی۔‘

ابھی میں یہ کہنے ہی والی تھی کہ کیا حریت کا کوئی کارکن کہیں نظر آ رہا ہے تو ان کا فون ڈراپ ہوگیا۔

میں عمران خان کے امیر کارواں کے کردار پر سوچ کی اس دلدل میں ویسے ہی پھنس گئی جیسے وہ سعودی عرب، اسرائیل، متحدہ عرب امارات، چین اور ایران کے سفارتی دلدل میں گھٹنوں تک پھنس گئے ہیں اور وہ بھی کشمیر کی وجہ سے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ