ننکانہ صاحب کے 27 سالہ پروفیسر کے قتل کا معمہ حل نہ ہوسکا

نجی کالج کے استاد محمد ابرار کو چار ماہ قبل دو نامعلوم افراد نے اغوا کے بعد فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

پولیس کے مطابق محمد ابرار کے قتل کے واقعے  کی تفتیش جاری ہے (تصویر: سوشل میڈیا)

صوبہ پنجاب کے شہر ننکانہ صاحب میں ایک نجی کالج کے استاد کے قاتل چار ماہ بعد بھی گرفتار نہ ہوسکے۔

27 سالہ پروفیسر محمد ابرار کو دو نامعلوم افراد نے اغوا کے بعد فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

مقتول کے والد ایئرفورس کے سابق افسر ذوالفقار حسن ملازمت کی غرض سے کراچی میں مقیم ہیں، لہذا ان کے چچا حافظ عبدالغفار حسن کی مدعیت میں مقدمہ درج کروایا گیا تھا۔

حافظ عبدالغفار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے بھتیجے کو رات کے وقت دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے اقصیٰ کالونی میں واقع ان کی رہائش گاہ سے بلایا اور قریبی گراؤنڈ میں لے جا کر گولیاں مار کر قتل کیا اور موقع سے فرار ہوگئے۔

پولیس کو شبہ ہے کہ مذکورہ پروفیسر کو کسی لڑکی سے افیئر کے معاملے میں قتل کیا گیا، تاہم ابھی تفتیش جاری ہے اور قاتلوں کا سراغ نہیں لگایاجاسکا۔

اس حوالے سے پولیس تھانہ واربرٹن کے تفتشی افسر خلیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پروفیسر ابرار کے قاتلوں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جاسکا، لیکن اس مقدمے کی اعلیٰ سطح پر تفتیش ہو رہی ہے اور کئی مشکوک لوگوں کے بیانات بھی قلمبند کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 انہوں نے مزید بتایا کہ 'ابتدائی معلومات کے مطابق اس قتل میں کسی لڑکی سے تعلقات کا معاملہ ہوسکتا ہے۔اس پہلو سے بھی جائزہ لیا جا رہا ہے اور جس کالج میں مقتول پڑھاتے تھے، ان کے ساتھی پروفیسروں اور انتظامیہ کا موقف بھی لیا گیا ہے۔'

تاہم مقتول کے چچا حافظ عبدالغفار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'مقتول محمد ابرار کی ایک لڑکی سے رشتے کی بات چیت چل رہی تھی لیکن ابھی رشتہ طے نہیں ہوا تھا۔ قتل سے ایک روز  قبل ابرار نے گھر والوں کو بتایا تھا کہ انہیں نامعلوم فون نمبر سے قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ واقعے کے بعد یہ فون نمبر پولیس کو دیا تو دھمکیاں دینے والا مذکورہ لڑکی کا ایک پڑوسی لڑکا نکلا۔ پولیس نے اس نوجوان سے بیان لینے کے بعد اسے رہا کردیا جبکہ اس کا موبائل بھی پولیس کے پاس ہے، مگر اس کے علاوہ پولیس کسی قسم کا سراغ نہیں لگا سکی۔'

مقتول کے چچا کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے ڈی پی او ننکانہ صاحب کے دفتر کے سامنے احتجاج بھی کیا، مگر تسلی کے سوا کوئی دادرسی نہیں ہوئی جبکہ وزیر داخلہ اعجاز شاہ کو بھی درخواست دی جاچکی ہے لیکن تاحال قاتل گرفتار نہیں ہوسکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان