چرس سے زیادہ کھیلوں کا سامان بیچنے میں مزہ ہے: دکاندار سابق فاٹا

جمرود بازار کے عقیل خان کے مطابق فاٹا انضمام کے بعد وہاں حالات ایسے ہوگئے کہ چرس کی جو دکانیں ہوا کرتی تھیں سب لوگوں نے ختم کردیں اور اب تمام دکانیں جنرل سٹور، دودھ دہی او سبزی وغیرہ کے کاروبار میں تبدیل ہوگئی ہیں۔

سابق فاٹا کے دور میں قبائلی علاقوں میں منشیات کی خریدوفروخت سمیت اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے یا کاروبار پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔

پہلے فاٹا ملک کے باقی نظام کی بجائے ایک الگ نظام کے تحت چلایا جاتا رہا جسے ایف سی آر( فرنٹیئر کرائمزریگولیشنز) کہا جاتا تھا۔

چونکہ قبائلی علاقوں کو حکومت کی جانب سے کسی قسم کی توجہ نہیں دی جاتی تھی اس وجہ سے یہ علاقے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ، ان علاقوں میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اس وجہ سے یہاں کے زیادہ تر لوگ منشیات کے کاروبار کے ساتھ منسلک تھے۔

قبائلی علاقوں میں ضلع خیبر بھی شامل ہے جہاں پر لوگوں کی بڑی تعداد روزگار نہ ہونے کی وجہ سے منشیات کے کاروبار سے منسلک تھی۔  

اب چوں کہ تمام قبائلی علاقے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہوچکے ہیں جہاں پولیس سمیت دیگر صوبائی اداروں کو توسیع دی گئی ہے۔

افغانستان کے ساتھ بارڈر پر باڑ لگانے اور قوانین کی توسیع کی وجہ سے ضلع خیبر میں منشیات کاکاروبار پہلے کی نسبت کم ہونا شروع ہوگیا ہے۔

پشاور سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر پاک افغان شاہراہ پر قائم جمرود بازار بھی ان علاقے میں واحد بازار تھا جہاں منشیات کی چھوٹی بڑی چار درجن سے زائد دکانیں ہواکرتی تھیں جن میں چرس،افیون اور آئس نشہ بلا کسی خوف و خطر خریدااور بیچا جاتا تھا۔

صوبے کے ساتھ انضمام کے بعد ان علاقوں میں پولیس کے چھاپوں ،گرفتاریوں اور لوگوں کے رویوں میں مثبت تبدیلی کے بعد اب جمرود بازار میں ظاہری طور پر منشیات کی کوئی دکان نہیں ، منشیات فروشوں نے اپنا کاروبار تبدیل کرلیا ہے اور اب باعزت کاروبار کرکے روزی روٹی کما رہے ہیں۔

ان دکانداروں میں عقیل خان (فرضی نام ) بھی ایک ہے جو گزشتہ تین دہائیوں سے جمرودبازار میں منشیات کا کاروبار کرتے رہے، اب ڈیڑھ برس ہوگئے کہ انہوں نے اپنی دکان میں کھیلوں کا سامان سجالیا ہے جہاں پہلے وہ چرس رکھتے تھے۔

جمرود بازار میں نمبر ایک کے نام سے مشہور چرس کی دکان کا نام وہی ہے لیکن اس میں کاروبار بدل گیاہے۔  دکان کے شوکیس میں چرس کے پیکٹ کی بجائے اب کرکٹ بال اور ٹیپ پڑے ہیں۔

عقیل خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کئی دہائیوں پہلے یہ کپڑے کی دکان تھی ، پھر جنرل سٹور بن گئی ،اس وقت جمرود بازار بھی اتنا بڑا نہیں تھا۔

اس وقت ان کے بڑوں نے تب کے حالات کے مطابق دکان کے سامنے پہلے پہل نسوار اور سگریٹ وغیرہ شو کیس میں لگا کر فروخت کرنا شروع کردیا۔

اس وقت اتنی سختی بھی نہیں تھی تو وقت کے ساتھ ساتھ چرس بھی بیچنا شروع کر دی۔

انہوں نے کہا کہ بیس سال سے خود وہ دکان چلارہےہیں۔ پہلے وقتوں میں چرس وغیرہ جیسی منشیات کی دکانیں ہوا کرتی تھیں اب انضمام کے بعدحالات ایسے ہوگئے کہ یہاں پر چرس کی جو دکانیں ہوا کرتی تھیں سب لوگوں نے ختم کردی ہیں۔

اب تمام دکانیں موبائل ،جنرل اسٹور ،دودھ دہی او سبزی وغیرہ کے کاروبار میں تبدیل ہوگئی ہیں۔

عقیل خان نے اس حوالے سے مزید کہا کہ یہاں سپورٹس کمپلیکس بھی بنایا گیا ہے ،اس وجہ سے ہم نے دکان میں کھیلوں کاسامان ڈال دیاہے جو ٹھیک چل رہاہے اور گزارہ بھی ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پہلے اس بازار میں منشیات کی چھوٹی بڑی تیس سے زائد دکانیں ہوا کرتی تھیں اب منشیات کی کوئی دکان نہیں رہی ۔

یہ سوال پوچھنے پر کہ کیا وجہ ہے کہ منشیات کی دکان ختم کر دی، عقیل خان نے اپنی دکان پرنظر دوڑاتے ہوئے کہا کہ جمرود بازر میں دہشتگردی کے خلاف آپریشنز کی وجہ سے سختی رہی اور بہت سے کیبن تجاوزات کی زد میں آکر ختم کیے گئے۔ بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ علاقہ جو کبھی غیر کہلاتا تھا اب خیبر پختونخوا کا حصہ ہوگیا ہے،حکومتی قوانین بھی یہاں تک پھیل گئے ہیں تو منشیات کاکاروبار کرنے والے بھی اب سائیڈ پر ہوگئے ہیں۔

عقیل خان نے بتایا کہ اس وقت چرس کے کاروبار میں اپنا مزہ تھا، پولیس نظام کے بعد حالات بھی سخت ہوگئے تو میں نے کہا نا کہ ہر کسی کو اپنی عزت عزیز ہے اس سے اچھا ہے کہ کام چھوڑ دیں۔

اب کھیلوں کے سامان کی فروخت میں چرس کی نسبت زیادہ مزہ آتا ہے اور خوب چل بھی رہاہے کیونکہ اب یہاں پر نوجوان بھی زیادہ کھیل کود کی طرف راغب ہیں ،کوئی فٹ بال، کوئی کیا تو کوئی کیا کھیل کا سامان خریدتا ہے ، یقین کیجیے کہ سامان بھی پورا نہیں کر سکتے ،یہاں کھیلوں کا سامان دکان پر آجاتا ہے ، پشاورجانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔

فٹ بال ،بیٹ بال،ٹرافیاں وغیرہ  سامان یہاں پر لا کے خریدتے ہیں اور کچھ پیسے نقد تو کچھ ادھار رہ جاتا ہے اور اسی طرح کام چلتا رہتا ہے۔

چرس بیچنے سے اب اس میں بہت مزہ آتا ہے کیونکہ وہ غیر قانونی تھا اوریہ کھیل کے سامان کا کاروبار ہے جو عام کھلم کھلا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب ہر کسی کو منشیات کے کاروبار سے الرجی سی ہوگئی ہے،جوکوئی اپنی حلال محنت مزدوری کرے گااللہ اس کو صلہ ضرور دیتا ہے۔

عقیل خان نے حکومت سے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ انضمام کی جو مراعات اور فوائدہیں ان سے ہم تاحال مستفید نہیں ہوئے کیونکہ یہاں پر پانی میسر ہے نہ بجلی نہ کسی اور قسم کی سہولیات ،بس انضمام کی باتیں ہو رہی ہیں،اب یہ پتہ نہیں کہ آخر یہ انضمام پھر کس بلا کا نام ہے؟

اگر یہ انضمام صرف حکومت نے اپنا کام نکالنے کےلیے کیا ہے پھر کیا فائدہ اس سے؟  پھر تو پرانا نظام ہی اچھا تھاکیونکہ مرجر سے لوگوں کو توقعات تھیں کہ ترقی کے کام ہونگے لیکن سب سے پہلے یہاں پر تھانوں ،جیلوں اور پولیس چیک پوسٹوں کو لے آئے لیکن ابھی تک عوام کی فلاح کے منصوبے نظر نہیں آرہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ روزگار نہ ہونے کے بعد بھی ہم نے غیر قانونی کاروبار کو ختم کیا اس خاطر کہ یہ کام اچھا نہیں ہے اور اب ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا علاقہ منشیات سے پاک ہوجائے لیکن پھر بھی یہاں کے لوگوں کےلیے کسی قسم کے متبادل روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے ہیں نہ ہی بازار میں سہولیات میسر ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کھیلوں کی وجہ سے نوجوان نسل منشیات سے دور ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اپنے حصے کا کام کرکے دکھاد یا اورنوجوان بھی مثبت سرگرمیوں کی طر ف راغب ہو رہے ہیں۔ قبائلی علاقے اب خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں تو صوبائی حکومت کو چاہیے کہ ایسے منصوبے قبائلی علاقوں میں شروع کرے جن سے عوام کو ڈائریکٹ فائدہ ملے۔

جمرود بازار کی انجمن تاجران کمیٹی کے صدر رفیع رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے یہاں پر خاصہ دار بھی موجود تھے، پولیٹیکل نظام ہوا کرتا تھا اور اس بازار میں منشیات کی دکانیں تھیں ،اب وہ لوگوں نے ختم کرکے دوسرا کاروبار شروع کر دیا ہے جو ایک اچھی بات ہے اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ لوگوں میں تعلیم اور شعور آگیا ہے جبکہ صوبے کے ساتھ انضمام بھی ہوچکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں پولیس کے قوانین کو بھی وسعت دی گئی ہے، پہلے کی نسبت سختی شروع ہوگئی ہے تو ان سارے عوامل کی وجہ سے لوگوں نے منشیات کے کاروبار سے کنارہ کشی اختیار کر لہ ہے اور ہم بھی چاہتے ہیں کہ تھوڑا بہت جو منشیات کا کاروبار ہے تو وہ بھی ختم ہو جائے کیونکہ اس سے لوگوں کی زندگیاں تباہ ہوتی ہیں۔

رفیع رضا نے مزید بتایا کہ ہماری کمیٹی بھی وقتاً فوقتاً بازار میں لوگوں کو منشیات فروشی کے خلاف آگاہی اور شعور دینے کےلیے جرگے منعقد کرتی ہے جس کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں لیکن پولیس اور انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ جن لوگوں نے منشیات کاکام ختم کیا ہے ان کی حوصلہ افزائی اور مدد کرے۔

ان کے مطابق اس بازارکے بہت سے مسائل ہیں۔ 'ایک مسئلہ تو یہاں پر پانی کا ہے، باب خیبر کے قریب تین سو کے قریب دکانیں ہیں جن کےلیے پانی کا کوئی منصوبہ نہیں۔ ایک ٹیوب ویل کی اشد ضرورت ہے، اس کے علاوہ جمرود بازار میں بیس سے تیس سال پہلے بجلی کے میٹر لگائے گئے ہیں، نوے کی تعداد میں دکانوں کو میٹر لگے ہوئے ہیں، دکاندار بل بھی ادا کرتے ہیں لیکن بجلی ہے ہی نہیں، تو یہاں پر بجلی کا بندوبست بھی ہونا چاہیے ۔

اس حوالے سے پولیس کیا کہتی ہے؟

ڈی پی او خیبر ڈاکٹر محمد اقبال نے انڈپینڈنٹ اردوکو بتایا کہ 'جیسے ہی پولیس نے یہاں ٹیک اوور کیا، منشیات کےخلاف جنگ کا آغاز کر دیا جس میں ہم نے منشیات کے خلاف چھاپے مارے، بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا، بہت ساری منشیات ریکور ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک سال کے دوران ڈرگز کے خلاف 114ایف آئی درج کی گئی ہیں جس میں 77افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

 ان چھاپوں میں 676کلوگرام کے قریب چرس،225کلوگرام ہیروئین ،80 کلوگرام افیون اور پانچ کلوگرام آئس برآمد کی جا چکی ہے۔ '

انہوں نے بتایا کہ اب منشیات فروشوں کو پہلے جیسی آزادی نہیں۔ اب کوئی کرتا بھی ہے تو چھپ چھپا کے ،لیکن پھر بھی ان لوگوں پر پولیس کی نظر ہوتی ہے۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا ہے تو چھاپوں اور مہم میں تیزی آئے گی۔

 ڈی پی او نے بتایا کہ اب یہاں کے لوگوں میں بھی شعور آیا ہے۔ جو قبائلی نظام تھا، جس کو ہم علاقہ غیر کہتے تھے، جہاں پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں تھا، وہ ختم ہوچکا ہے۔ اب منشیات فروشوں کو وہ آزادی نہیں مل سکتی جو ضم ہونے سے پہلے تھی یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا کاروبار تبدیل کر رہے ہیں اور حلال رزق کی طرف آرہے ہیں۔

ڈاکٹر محمد اقبال نے بتایا کہ جہاں پر بھی ہماری کھلی کچہری ہوتی ہے، ہم منشیات کے خلاف پیغام دیتے ہیں اور لوگ سنتے بھی ہیں۔ ایک سال میں خیبر پختونخوا پولیس نے اچھے نتائج دیے ہیں ،آئندہ سالوں میں دیکھیں گے کہ ضلع خیبر جو بدنام تھا منشیات کے حوالے سے، اس کو ختم کرکے ایک اچھی تصویر لوگوں کو دکھائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا