لندن کی ایک یونیورسٹی کی کلاس میں کچھ عرصہ قبل پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور مالدیپ کے طالب علم صحافی بیٹھے تھے۔ لیکچرر نے سوال پوچھا: ’آپ کے خیال میں آپ کے ملک کو درپیش ٹاپ پانچ مسائل کیا ہیں جو مستقبل قریب میں بھی آپ کے ملک کے لیے چیلنج بنے رہیں گے؟‘
مجھ سمیت سب طالب علم صحافی تھے، اپنے ملک کے مسائل انگلیوں پر تھے، جھٹ ون، ٹو، تھری کی فہرست بنائی اور لکھ دیے۔ دلچسپ یہ تھا کہ تقریباً سب ہی پاکستانی اور بھارتی صحافیوں کی لکھی فہرست میں ایک دوسرے کا نام بطور سرحدی سکیورٹی چیلنج شامل تھا۔
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
لرزتی معیشت اور غربت بھی لگ بھگ سب ہی نے مسئلے کے طور پر شامل کیں لیکن ایک مسئلہ جس کا ذکر سوائے مالدیپ کے صحافی کے کسی نے نہیں کیا وہ تھا ماحولیاتی تبدیلی کا خوف ناک چیلنج۔ مالدیپ جزیروں پر مشتمل سمندر میں گھرا ملک ہے جسے بلند ہوتے سطح سمندر سے ڈوب کر سب سے پہلے ختم ہو جانے کا ڈر ہے۔
کلاس میں موجود بھارتی اور پاکستانی صحافی عجیب شرمندہ شرمندہ سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے کہ اس مسئلے کی طرف تو ہم نے کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں۔ چیلنج بننے کے لیے ہم دونوں ملک ہی ایک دوسرے کو کافی ہیں بھلا موسم کس گنتی میں آتا ہے؟
تو بات یہ ہے کہ کراچی کو ڈوبتا دیکھ کر اربن فلڈنگ، بند گٹروں، کچرے سے بھرے برساتی نالوں، بے ہنگم تعمیراتی منصوبوں، نکاسی آب کے بیٹھے ہوئے نظام پر خوب رج کے تنقید کیجیے لیکن اس میں ماحولیاتی تبدیلی پر ہماری عدم تیاری کا نکتہ بھی ملا لیجیے۔
یہاں زمین پہ بسا شہر کراچی ہم سے سنبھل نہیں پا رہا ادھر آسمان پہ تنے بادلوں سے بنتا نئے ریکارڈ توڑ موسموں کا سلسلہ بھلا کہاں ہماری سنے گا۔ بپھرے موسموں کو قابو کرنا اپنے بس کی بات نہیں۔
پہلے معمولی بارشوں سے نصف کراچی زیر آب آتا تھا لیکن حالیہ غیرمعمولی بارشوں سے لگ بھگ پورا کراچی ڈوب گیا ہے۔ سرجانی ٹاؤن، یوسف گوٹھ اور خدا کی بستی کی جھونپڑ پٹی سے لے کر ڈیفنس کی کوٹھیوں تک، ڈوبنے کا مزہ سب نے چکھا ہے۔
کراچی جو معمول کی بارشیں سہنے کو تیار نہیں تھا اس نے ریکارڈ توڑ سیلابی بارش کے آگے ہاتھ پیر چھوڑ دیے۔ اس بات کو جتنا جلدی مان لیں گے اتنا ہی جلد کسی حل کی جانب پہلا قدم ہوگا۔
ورنہ سعید غنی چاہے ساری رات اندھیری سڑکوں پر گاڑی کی فرنٹ لائٹ سے کراچی میں خشک زمین فلم بند کرتے رہیں، وہ وائرل ویڈیوز منہ چڑاتی رہیں گی جن میں کراچی بحیرہ عرب پر کھڑی عمارتوں کا مجموعہ نظر آتا ہے۔
ایم کیو ایم والے بھلے آنسوؤں کی جھڑی میں اختیارات اور فنڈز کے سوال پوچھتے رہیں اور پیپلز پارٹی والے کراچی سے منتخب تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی کے نام گنواتے رہیں، پانی سے بھرے بادلوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ان کی تو تو میں میں سننے کو ٹھہرے رہیں، انہوں نے برسنا ہے وہ تو برسیں گے۔
جماعت اسلامی جتنا چاہے ریسکیو آپریشن کر کے کراچی والوں کے دل جیتے، کچھ عناصر کراچی صوبے کا نعرہ لگاتے رہیں اور کچھ واپس جاؤ کا جواب دیتے رہیں، کراچی کو فوجی ایڈمنسٹریٹر کی گود میں دینے کا آئیڈیا کہیں سہل پسندوں کو سوجھے یا مشکل پسند افراد ڈی ایچ اے کراچی کی ڈوبی گلیاں دکھانے کی مشق پورا سیزن کرتے رہیں، مون سون کے موسم کو سوشل میڈیا پر جاری ٹرینڈز سے کوئی سروکار نہیں۔
حالیہ مون سون نے کراچی میں بارش کا 90 سالہ ریکارڈ توڑا ہے۔ دنیا کے موسم بدل رہے ہیں، گر بادلوں اور ہواؤں کی یہی سازش جاری رہی تو کراچی والے اور بھی ریکارڈ ٹوٹتے بنتے دیکھیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اول تو یہاں یہی گتھی نہیں سلجھ رہی کہ کراچی کی قیادت ہے کس کے ہاتھ میں؟ گر یہ معاملہ حل ہو تو اگلا مرحلہ شہری انتظام کے شعبوں اور ان کو چلانے کے اختیارت کی تقسیم کا ہوگا۔ فرض کر لیں کہ یہ سیاسی الجھن بھی کسی معجزے سے حل ہو جائے تو اگلا چیلنج شہر کے بیچو بیچ کھنچی ان انتظامی لکیروں کو ختم کرنا ہوگا جو عام کراچی کو کنٹونمنٹ کراچی سے الگ کرتی ہیں۔
کراچی کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے وفاق اور سندھ حکومت کی کوآرڈینیشن کمیٹی بنی ہے۔ جب بنی تھی تب ہی خانہ پری کا شک ہوتا تھا اب پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کے بیانات اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ شکوک ایسے بھی غلط نہ تھے۔ حال یہ ہے کہ ابھی اس کمیٹی نے کام شروع نہیں کیا کہ نیتوں کے فتور پہلے ہی راستہ کھوٹا کرنے لگے۔
ہونا یہ چاہیے کہ اس وقت وزیراعظم کراچی میں بیٹھیں اور کمشنر،گورنر، وزیراعلیٰ، فوج، این ڈی ایم اے، وزارت ماحولیات، اربن ڈویلپمنٹ کے ماہرین، اربن فاریسٹ کے ماہرین، سیاسی جماعتوں کی قائد اور شہر کا بوجھ ڈھوتی امدادی تحریکیں جیسے ایدھی، چھیپا، جے ڈی سی سب کو بلائیں۔ سب مل کر حل ڈھونڈیں۔ اکیلے نہ پیپلز پارٹی اس خرابے کی ذمہ دار ہے نہ وفاق کے پاس کوئی حل ہے۔
ہونا تو خیر کیا کچھ نہیں چاہیے لیکن ہو کیا رہا ہے؟ تو نے ندی پہ آبادی بنائی، تو نے نالوں میں بجری کی بوریاں ڈالیں، تو نے کراچی سیوریج بورڈ پہ قبضہ رکھا، تو ہے جو کے ایم سی کے فنڈ کھا گیا، تو نے کچرے کی سیاست کی، تو نے ویسٹ مینجمنٹ کا کباڑا کیا، تو کراچی پہ قابض، تو کراچی میں گھس بیٹھیا، تو راشی، تو کرپٹ، تو سندھی، تو مہاجر، تو فوجی، تو سیاسی۔
گر اس خانہ خراب کا کوئی فل سٹاپ نہ مل سکا، گر یہی سب چلتا رہا تو میرے پیارے کراچی والو! جان لو اور بھی برس آئیں گے، اور بھی مون سون گرجے گا، اور بھی بادل چھلکیں گے، اور بھی پانی ٹھہرے گا۔ ابھی تو ہمیں اور ڈوبنا ہے۔