توہین مذہب کے مقدمات: خصوصی عدالتیں کیوں ضروری؟

پشاور ہائی کورٹ کے ایک وکیل نے توہین مذہب کے مقدمات کو جلد نمٹانے اور وکلا سمیت ایسے مقدموں سے جڑے ججوں کے تحفظ کے لیے عدالت عالیہ میں ایک درخواست دائر کی ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کی عمارت کا ایک منظر(فائل تصویر: اے ایف پی)

توہین مذہب کے مقدمات کو جلد نمٹانے اور وکلا سمیت ایسے مقدموں سے جڑے ججوں کے تحفظ کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں ایک وکیل کی جانب سے مخصوص عدالتیں قائم کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی گئی ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل شبیر حسین گگیانی کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن میں وزیراعظم عمران خان، صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی، قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر، سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اور وفاقی سیکرٹری قانون سمیت سپیکر صوبائی اسمبلی، گورنر، وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کو فریق بنایا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب درخواست کی کاپی کے مطابق: 'پاکستان پینل کوڈ کے باب 15 میں درج مذہبی نوعیت کے جرائم کے مقدموں  کی تحقیقات مخصوص اور سپیشلائزڈ اداروں جیسا کہ انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ، آئی بی، ایف آئی اے یا کرائم برانچ سے کرانے کے بارے میں درج ہے۔'

اس بنیاد پر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ 'ایسے مقدموں کی سماعت کے لیے انسداد دہشت گردی یا چائلڈ پروٹیکشن سے جڑے مقدموں کی طرز پر مخصوص عدالتیں قائم کی جائیں اور ان پر جلد فیصلہ سنایا جائے جبکہ ان مقدمات سے جڑے ملزمان، وکلا اور ججز گواہان کے تحفظ کے لیے خصوصی قوانین بنائے جائیں۔

درخواست گزار شبیر حسین گگیانی نے پیٹیشن دائر کرنے کی وجوہات بتاتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'مذہب سے جڑے مقدمات انتہائی حساس نوعیت کے ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں دیگر مقدمات کی طرح روایتی طریقے سے ڈیل کیا جاتا ہے اور جلد اور محفوظ طریقے سے نہیں نمٹایا جاتا۔'

گگیانی نے بتایا کہ ایسے مقدمات میں ملزمان کچھ نہ کچھ ثبوت چھوڑ دیتے ہیں لیکن پولیس کی جانب سے ان شواہد کو درست طریقے سے جمع نہ کرنے کی وجہ سے بھی مقدمہ کمزور ہوجاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نیشنل کمیشن فار جسٹس کی 2014 کے رپورٹ کے مطابق 1987 سے مجموعی طور 131335 مذہبی نوعیت کے مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ ان مقدمات میں سے 633 مسلمانوں پر، 494 احمدی کمیونٹی کے لوگوں پر، 187 مسیحیوں پر جبکہ 21مقدمات ہندوؤں پر درج ہو چکے ہیں لیکن ان میں سے چند ہی مقدمات کا فیصلہ ہوا، جس کہ وجہ ٹرائل میں تاخیر، تحقیق کی کمی، گواہان کا پیشی سے گھبرانا اور ان مقدمات سے جڑے لوگوں کا تحفظ نہ ہونا شامل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گگیانی کے مطابق چونکہ ان مقدمات میں دونوں فریقین کو تحفظ نہیں دیا جاتا اس لیے ماورائے عدالت کارروائیاں سامنے آتی ہیں اور بعض دفعہ عوام کی جانب سے قانون کو ہاتھ میں لینے کے واقعات سامنے آتے ہیں۔

مولانا محمد اسماعیل کا شمار پشاور کے معتبر علما میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اس ساری صورت حال پر بات کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ  'توہین مذہب کے قوانین پہلے سے موجود ہیں لیکن اس پر عمل درآمد کی کمی ہے اور اب اگر کوئی مخصوص عدالت بنتی ہے یا کوئی نیا قانون بنایا جاتا ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ اس کا کوئی فائدہ ہوگا کیونکہ اصل بات کسی بھی قانون پر عمل درآمد کی ہے۔'

ان کا کہنا تھا: 'توہین مذہب کے علاوہ عام مقدمات بھی کئی دہائیوں تک  چلتے رہتے ہیںِ لیکن فیصلہ نہیں سنایا جاتا۔ اچھی بات ہے کہ توہین مذہب کے مقدمات کے لیے مخصوص عدالت ہو لیکن سب سے اہم بات ان مقدمات پر جلد فیصلہ سنانا ہے۔'

مذہبی نوعیت کے مقدمات میں تاخیر کے اسباب سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا محمد اسماعیل نے بتایا کہ 'ہمارا پورا عدالتی نظام انگریزوں کے طرز انصاف پر چلا رہا ہے جبکہ شرعیت میں تو مقدمات کا فیصلہ دو تین سماعتوں میں کیا جاتا تھا۔'

ان کا مزید کہنا تھا: 'عدالتوں میں عملہ موجود ہے۔ قوانین بھی پہلے سے بنے ہیں لیکن حکومت اور عدالتی نظام میں بہتری کی ضرورت ہے تاکہ ایسے مقدمات جتنی جلدی ہوسکیں، نمٹائے جاسکیں۔'

پاکستان میں اس وقت توہین مذہب کے مقدمات عام عدالتوں میں سنے جاتے ہیں، جس کے لیے تعزیراتِ پاکستان کی شق 295 میں قوانین موجود ہیں۔ 

ان مقدمات کو سننے کے لیے مخصوص عدالتوں کے حوالے سے پیٹیشن ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حال ہی میں پشاور کی ایک مقامی عدالت میں توہین رسالت کے ملزم طاہر نسیم کو دوران سماعت کمرہ عدالت میں ایک نوجوان نے گولی مار دی تھی۔

اس سے قبل عبد الولی خان یونیورسٹی مردان کے طالب علم مشال خان کو توہین رسالت کا الزام لگا کر یونیورسٹی کے احاطے میں بھرے ہجوم نے تشدد کرکے ہلا ک کیا تھا جبکہ اسلام آباد میں کئی سال قبل گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کے اپنے ہی سکیورٹی گارڈ نے توہین رسالت کے الزام میں قتل کردیا تھا۔

کیا مخصوص عدالتوں کے ذریعے فیصلے نمٹائے جا سکتے ہیں؟

سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'پہلی بات تو یہ ہے کہ مخصوص عدالتوں کے بنانے کے لیے قانون سازی اسبملی میں کی جائے گی تب ہی وہ بن سکتی ہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالتی نظام میں ایسے مختلف آپشنز موجود ہیں جن کے تحت میں سٹیک ہولڈرز کے تحفظ کے لیے مقدمات کی سماعت جیلوں میں کی جاتی ہے، جیسے مشال خان کے مقدمے میں ہوا تھا۔

جبران کے مطابق: 'اسی طرح ماڈل کورٹس بھی ہمارے سامنے موجود ہیں جو مخصوص مقدمات کو سنتی ہیں اور ایک آپشن یہ بھی ہے کہ اگر مقدمے میں ماہرین کی رائے درکار ہو اور اس کی نوعیت کے بارے میں ججز کو اتنا علم نہیں ہو تو مخصوص عدالتیں بنائیں جاتی ہیں جیسا کہ احتساب یا انسداد دہشت گردی کی عدالتیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'مخصوص عدالتوں سے فیصلے جلد ممکن ہیں تاہم یہ مسئلہ تب حل ہو سکتا ہے جب ججز پر دباؤ کم ہو اور عدالتوں کے سنائے گئے فیصلے عوام کو قابل قبول ہوں تاکہ قصور وار کو سزا اور بے قصور کو بری کیا جاسکے۔'

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان