مطیع اللہ جان کیس: اسلام آباد پولیس کی 'بے بسی' پر قہقہے

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے صحافیوں پر حملوں، انہیں ہراساں کرنے اور پابندیوں کے واقعات ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شامل افراد (عبداللہ جان/انڈپینڈنٹ اردو)

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے بدھ کو ایک اجلاس کے دوران پاکستان میں صحافیوں پر حملوں، انہیں ہراساں کرنے اور آزادی رائے پر قدغنوں سے متعلق واقعات ریکارڈ کرنے کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

مشترکہ کمیٹی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے تین، تین اراکین شامل ہوں گے جو ملک بھر کے صحافیوں کو ان کے ساتھ پیش آنے والے ہراسانی کے واقعات پر بیان کرنے کی دعوت دے گی اور ان بیانات کو پارلیمان کے ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے گا۔

چیئرمین میاں جاوید لطیف کی صدارت میں ہونے والے قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب صحافی مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا کا معاملہ زیر بحث تھا۔ 21 جولائی کی صبح نامعلوم افراد صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس تھری سے زبردستی اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے اور انہیں تقریباً 12 گھنٹوں تک حبس بے جا میں رکھا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران اسلام آباد پولیس کو تین ہفتوں میں مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔

مطیع اللہ جان نے کیا بتایا؟

اجلاس کے دوران صحافی مطیع اللہ جان نے اپنے مبینہ اغوا کی تفصیلات بتاتے ہوئے اس معاملے پر بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جےآئی ٹی) کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے۔

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے اجلاس میں ایک محکمے کے اہلکار کے علاوہ ان سے پولیس سمیت کسی نے کوئی سوال نہیں پوچھا۔ 'جو صاحب سوالات پوچھ رہے تھے ان کا زور صرف اس بات پر تھا کہ کہیں میرے اغوا کا تعلق ذاتی دشمنی سے تو نہیں۔ وہ مجھے بار بار اس سلسلے میں سوچنے کا مشورہ دیتے رہے۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس افسران اور جے آئی ٹی اراکین نے ان کا مجسٹریٹ کو دیا گیا بیان بھی نہیں پڑھا ہوا تھا۔ مطیع اللہ جان نے اسلام آباد پولیس کی تفتیش پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ جائے وقوعہ پر قریبی سکول کی عمارت پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل نہیں کی گئی جبکہ کیمروں سے منسلک کمپیوٹر سسٹم کی ہارڈ ڈرائیو پولیس نے قبضے میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا: 'تفتیشی افسر کہتے ہیں کہ وہاں کیمرے موجود نہیں تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے معلوم کیا کہ کیمرے کس نے اتارے؟ اور کیا کیمروں کی غیر موجودگی کی اطلاع دینے والے شخص کا بیان ریکارڈ کیا گیا؟'

مطیع اللہ جان کے مطابق 'ان کے اغوا کار اس سڑک سے گزر کر آئے جو بند تھی اور جسے ان کی گاڑیوں کو راستہ دینے کے لیے کھولا گیا۔' اسلام آباد پولیس کے نمائندوں نے اجلاس کو بتایا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے بعد ایس پی سٹی اس واقعے سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے دوسرے محکموں کے دفاتر خود گئے اور متعلقہ معلومات حاصل کیں۔

ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد نے بتایا کہ پولیس کو متعلقہ معلومات حاصل کرنے میں کافی دقت ہوئی اور وقت لگا، جس کے باعث تفتیش کی تکمیل تاخیر کا شکار ہوئی، تاہم انہوں نے کہا کہ اب تمام معلومات حاصل ہو چکی ہیں اور دو ہفتوں میں رپورٹ تیار ہو جائے گی۔

چیئرمین کمیٹی میاں جاوید لطیف نے انہیں تین ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کی استدعا کی، جس میں واقعے کی وجوہات اور ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہو۔ اس موقعے پر مطیع اللہ جان نے کمیٹی چیئرمین کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ 'تمام سرکاری محکمے پارلیمان کو جوابدہ ہیں، اس لیے آپ ان سے استدعا نہ کریں بلکہ حکم دیں۔' جس پر قومی اسمبلی کے کمیٹی روم نمبر سات میں موجود کئی چہروں پر مسکراہٹیں بکھر گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اجلاس کی کارروائی کے دوران ایک اور موقعے پر بھی شرکا اپنی ہنسی نہ روک سکے۔ یہ وہ موقع تھا جب ڈی آئی جی اسلام آباد کمیٹی اراکین کے سامنے مطیع اللہ جان کیس سے متعلق اپنے محکمے کی مجبوریوں کا ذکر کر رہے تھے، جس پر ایک کمیٹی رکن نے کہا: 'ان (پولیس) کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں،' جس پر ڈی آئی جی نے فوراً کہا کہ 'ان کے ہاتھ نہیں بندھے ہوئے۔'

اس پر کمیٹی روم میں کئی اطراف سے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں۔ ڈی آئی جی آپریشنز نے کمیٹی کو ایک تجویز یہ بھی دی کہ جو محکمہ مطیع اللہ جان کیس میں تعاون نہیں کر رہا اسے بھی اجلاس میں بلایا جائے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے ڈی آئی جی کو ہدایت کی کہ کسی محکمے کی طرف سے عدم تعاون کی صورت میں سیکریٹری کمیٹی مدد کر سکتے ہیں۔

صحافی مطیع اللہ جان نے اجلاس کے دوران کہا کہ ان کے'اغوا' اور ماضی میں ان پر ہونے والے حملوں کی تفتیش کا تو شاید کوئی نتیجہ نہ نکل سکے، تاہم پارلیمان کے دونوں ایوانوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو صحافیوں کے خلاف ہونے والے واقعات ریکارڈ کرے۔

اس پر کمیٹی چیئرمین نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی اطلاعات و نشریات کی کمیٹیوں پر مشتمل ایک مشترکہ کمیٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے اپنی کمیٹی سے تین اراکین کے نام پیش کیے، جن میں آفتاب جہانگیر، بلوچ ناز اور رانا ارادت شریف شامل ہیں۔

راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر آصف بھٹی نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ 'آج یہ کمیٹی ہم صحافیوں کو بتا دے کہ ہم کیا کریں؟ اگر تنقید برداشت نہیں تو آئین میں سے آرٹیکل 19 نکال دیا جائے۔'

آصف بھٹی نے مزید کہا کہ صحافیوں کے اغوا اور آزادی صحافت پر قدغنوں کے واقعات سے عالمی برادری میں ملک کا وقار مجروح ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کا بھی ذکر کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان