نفرت آمیز مواد پر فیس بک نے بی جے پی رہنما پر پابندی عائد کر دی

فیس بک کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا: ’ٹی راجا سنگھ کو ہماری ان پالیسیوں کی خلاف ورزی کرنے پر بلاک کردیا گیا ہے جو ہمارے پلیٹ فارم کو تشدد کو فروغ دینے یا نفرت میں ملوث ہونے سے منع کرتی ہیں۔‘

ٹی راجا سنگھ نے  کہاکہ اس پابندی کو چیلنچ کریں گے اور فیس بک کا یہ اقدام مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی پر حملہ ہے۔(ٹوئٹر)

سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک نے مسلمانوں کے بارے میں نفرت انگیز مواد پھیلانے پر ہندو قوم پرست سیاستدان پر پابندی عائد کردی ہے۔ 

گذشتہ ماہ امریکی اخبار 'وال سٹریٹ جرنل' کی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ کس طرح وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت کے رکن اور قانون ساز ٹی راجا سنگھ نے اپنے ذاتی فیس بک پیج کا استعمال کرتے ہوئے روہنگیا تارکین وطن کو گولی مارنے اور مساجد گرانے کا مطالبہ کیا تھا۔

رواں برس مارچ میں فیس بک کے داخلی نگرانی کے شعبے نے اس اکاؤنٹ کو خطرناک قرار دیتے ہوئے راجا سنگھ پر فیس بک کے استعمال پر پابندی لگانے کی سفارش کی تھی تاہم بھارت میں کمپنی کی پبلک پالیسی کی اعلیٰ ترین عہدیدار انہکی داس نے  بی جے پی کے رہنماوں پر 'فیس بک کے نفرت انگیز مواد کے اصولوں کو نافذ کرنے کی مخالفت کی' اگرچہ یہ اس مواد کے معاملے کو کمپنی میں اندوری طور پر اٹھایا گیا تھا۔ 

دوسری جانب ٹی راجا سنگھ کے فیس بک اور انسٹاگرام پر اکاؤنٹس اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ہٹائے نہیں گئے۔

اپوزیشن جماعتوں اور ناقدین کے شدید ردعمل کے بعد اب فیس بک نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیمان ٹی راجہ سنگھ کے اکاؤنٹ کو بالآخر بلاک کر دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیس بک کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا: ’ٹی راجا سنگھ کو ہماری ان پالیسیوں کی خلاف ورزی کرنے پر بلاک کردیا گیا ہے جو ہمارے پلیٹ فارم کو تشدد کو فروغ دینے یا نفرت میں ملوث ہونے سے منع کرتی ہیں۔‘

ترجمان نے مزید کہا کہ راجا سنگھ کو بلاک کرنے کا فیصلہ ایک وسیع عمل کی پیروی کے طور پر کیا گیا ہے۔

یہ اقدام ایسے وقت کیا گیا ہے جب ایک روز قبل ہی بھارتی پارلیمان کی ایک کمیٹی نے فیس بک کے عہدیداروں سے نفرت انگیز بیانات کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر کڑے سوالات کیے تھے۔

دوسری جانب ٹی راجا سنگھ نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اس پابندی کو چیلنچ کریں گے اور فیس بک کا یہ اقدام مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی پر حملہ ہے۔

راجہ سنگھ نے پابندی کو ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا: ’وہ (فیس بک) میرے ذریعے اصل میں بی جے پی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ ہماری جماعت کے خلاف اس پلیٹ فارم کا دانستہ اقدام ہے۔‘

فیس بک بھارت کے سیاسی میدان جنگ میں حریف فریقوں کی جانب سے جانبداری کے الزامات کے درمیان پھنس گیا ہے۔ صارفین کی تعداد کے لحاظ سے بھارت دنیا میں اس امریکی فرم کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔

کانگریس سمیت اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ فیس بک بی جے پی کی حمایت کرتا ہے اور یہ کہ بھارت میں اس کی عہدیدار آنہکی داس نے راجا سنگھ کے مسلم مخالف بیان بازی کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کردیا کیونکہ اس سے کمپنی کے کاروباری مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

کانگریس پارٹی نے کہا کہ بی جے پی اور فیس بک کے مابین مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے۔

ادھر بھارت کے مواصلات کے وزیر روی شنکر پرساد کا کہنا تھا کہ یہ کمپنی مودی اور ان کی پارٹی کے خلاف ہے۔

پرساد نے فیس بک پر الزام لگایا کہ وہ حکمران جماعت کے خلاف  لگائی بجھائی اور چہ مگیوں کے ذریعے بھارت کی سیاست پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

راجہ سنگھ کے مطابق وہ تمام روہنگیا مسلمانوں کو اپنی آبائی ریاست تلنگانہ سے نکالنے کے مطالبہ پر قائم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ مطالبہ کریں گے کہ فیس بک انہیں اپنا تصدیق شدہ اکاؤنٹ استعمال کرنے دے۔

انہوں نے کہا: ’اگر دوسرے لوگ میرے نام پر اکاؤنٹ کھولیں اور میری ویڈیوز اپ لوڈ کریں تو فیس بک حکام کیا کریں گے؟ ایسے کتنے اکاؤنٹس پر پابندی لگائیں گے؟‘

تاہم کمپنی کے ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ راجا سنگھ کو فیس بک یا انسٹاگرام پر کسی بھی طرح کی موجودگی کی اجازت نہیں ہوگی۔

ڈیجیٹل حقوق کے کام کرنے والے نکھل پہاوا نے کہا کہ فیس بک نے بنیاد پرستی اور تشدد پر اکسانے والے افراد کے خلاف صرف اس وجہ سے کارروائی کی ہے کیوں کہ ان پر ایسا کرنے کے لیے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’اگر نفرت انگیز بیانات کے حوالے سے ہماری توقع یہ ہے کہ فیس بک کو ایسے نفرت انگیز مواد ہٹا دینا چاہیے لیکن اسی کے ساتھ یہ ہم یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی بھی کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا