پاکستان میں سستے حج کی سکیم زیر غور

حلال سرمایہ کاری کی اس سرکاری سکیم کے ذریعے لوگ باآسانی حج کر سکیں گے۔

ماہرین کے مطابق اگلے سال پاکستانیوں کے لیے حج اخراجات پانچ لاکھ سے تجاوز کر سکتے ہیں۔ (تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں 2020 کے لیے حج کے اخراجات چار لاکھ 86 ہزار 270 روپے مقرر کیے گئے تھے، جو 2019 میں چار لاکھ 36 ہزار 935  روپے اور 2018 میں تقریباً دولاکھ 93 ہزار50 روپے تھے۔ اس طرح یہ دو سال میں تقریباً 66 فیصد اضافہ بنتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اگلے سال یہ اخراجات پانچ لاکھ روپے سے تجاوز کر سکتے ہیں۔ ان حالات میں عام آدمی کے لیے حج کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور متوسط طبقے کے افراد اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کیا وہ کبھی حج ادا کر بھی سکیں گے؟

اس صورت حال میں لاہور کے ماہر معیشت میاں عمران احمد نے سستے اور جلدی حج کی سہولت سے متعلق ملائیشیا کے 'تابوغ حاجی پروگرام' کی طرز پر پاکستان میں ایک فارمولے پر مبنی نئی حج پالیسی بنانے کی تجاویز دی ہیں۔ 

انہوں نے اپنی تجاویز اور'ملائیشین تابوغ حاجی ایکٹ' اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا ہے، جسے کونسل کے ممبران نے حج سستا کرنے کے حوالے سے 'بہترین منصوبہ' قرار دیا۔ 

عمران  نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بنیادی طور پر اس منصوبے کے ذریعے کوئی بھی شخص بینک یا پوسٹ آفس میں اکاؤنٹ کھلوائے گا، جس کے بعد یہ رقم اسلامی نظریاتی کونسل اور اسلامی شرعی بورڈ، جس میں تمام مکتب فکر کے علما ہیں، حلال پراجیکٹس میں انویسٹ کریں گے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن کو صارفین کے اکاؤنٹس میں منتقل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ جیسے ہی یہ رقم حج کے اخراجات کے برابر ہوجائے گی، صارف کو حج کرا دیا جائے گا اور اس کا اکاؤنٹ بند کردیا جائے گا۔

عمران کے مطابق یہ ایک 'عملی حل' ہے، جو نہ صرف عام آدمی کی استطاعت کو بڑھا سکے گا بلکہ پاکستانی معیشت کے لیے بڑا منصوبہ ثابت ہوگا۔ 'عام آدمی یہاں 10،15 سال پیسے اکھٹے کرتا ہے، اس کے بعد وہ حج ادا کر پاتا ہے،اس کے لیے وہ پیسے گھر میں رکھ کر جمع کرتا ہے۔'

ان کے مطابق اس منصوبے سے 15 سال کا طویل وقت دو سے پانچ سال میں منتقل ہوجائے گا، جو پیسہ گھروں میں پڑا ہے وہ بینکوں میں آئے گا اور معیشت میں شامل ہونے سے معیشت بہتر ہوگی۔

 

اسلامی نظریاتی کونسل کیا کہتی ہے؟

اس حوالے سے سربراہ اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز نے اپنے آڈیو پیغام میں کہا کہ عمران احمد نے تجویز پیش کی تھی کہ ملائیشیا اور انڈونیشیا کی طرز پر حج فنڈ قائم کیا جائے۔ 'یہ حج فنڈ اس بات کو یقینی بنائے کہ حج اخراجات زیادہ نہ ہوں، صاحب استطاعت کی برداشت سے باہر نہ ہو، اس بارے میں ملائیشین ایکٹ بھی موصول ہوا ہے۔'

انہوں نے بتایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس تجویز کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ وزارت مذہبی امور کو ارسال کیا جائے تاکہ ترتیب بنائی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ وزارت مذہبی امور نے باقاعدہ کام کیا اور اس کے ساتھ اتفاق کر لیا، اب ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سیکرٹری ڈاکٹر اکرام الحق یاسین بھی شامل ہیں۔

ان کے مطابق کمیٹی یہ دیکھ رہی ہے کہ ملائیشیا اورانڈونیشیا کے برعکس پاکستانی تناظر میں اس سرمائے کو کیسے انویسٹ کیا جائے تاکہ اس کی آمدن حلال ذرائع سے ہو اور کس طریقے سے اعلان کیا جائے، کس طریقے سے حج فنڈ میں رقوم جمع کرائی جائیں، کن کن علاقوں میں کیسے پیسہ استعمال کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی ان تمام باتوں پر غور کر رہی ہے اور مسودہ تیار ہوچکا ہے، جو کابینہ میں جائے گا اور منظوری کے بعد حج فنڈ کا اعلان ہوگا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سال حج نئی پالیسی کے تحت ہوگا۔

ملائیشیا کا حج پروگرام کیا ہے؟

اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوائی گئی تفصیل کے مطابق تابوغ حاجی ملائشیا کا سرکاری حج پروگرام ہے، اسے ٹی ایچ کے نام سے جانا جاتا ہے۔  ملائیشیا کے عوام کم پیسوں اور حلال آمدن سے حج کرنے کے خواہاں تھے لیکن ملک میں حج کے لیے حلال سرمایہ کاری کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔

اس ضرورت کے پیش نظر معاشیات کے پروفیسر جناب انگکو عبدالعزیز بن انگکو عبدالحامد نے 1959میں ملائیشین حکومت کی توجہ حلال سرمایہ کاری کے ذریعے عوام کو حج کی سہولت فراہم کرنے کی طرف دلوائی۔ اس کا نام پروسپیکٹو حج پلگرمز سیونگز کارپوریشن رکھا گیا۔ بعدازاں اسے 'تابوغ حاجی' کا نام دیا گیا۔ 30 ستمبر 1963 کو اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔ جدید دنیا میں اس ایکٹ کو سرکاری سطح پر اسلامی حلال سرمایہ کاری کے ذریعے حج کی سہولت فراہم کرنے والا پہلا مکمل قانون سمجھا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تابوغ حاجی بینک اسلامی ملائشیا کی مذہبی کونسل اور نیشنل فتویٰ کمیٹی کی زیرنگرانی کام کرتا ہے۔ ملائیشیا میں شاندار کامیابی کے بعد انڈونیشیا اور مالدیپ نے بھی اس منصوبے کو اپنا لیا ۔

ملائیشیا میں ابتدائی طور پر 1281 لوگوں نے 46 ہزار610رنگٹ سے اکاؤنٹ کھلوائے اور 2019 تک اس میں 93 لاکھ اکاؤنٹ کھل چکے ہیں جن میں73 ارب رنگٹ جمع ہیں۔ اس منصوبے کے تحت کوئی بھی ملائیشین شہری کسی بھی ٹی ایچ برانچ میں مفت اکاؤنٹ کھلوا کر ہر ماہ اپنی استطاعت کے مطابق اس میں رقم جمع کرواتا رہتا ہے۔ 

ملائیشین حکومت اسے حلال منصوبوں میں انویسٹ کرتی ہے اور حج کی رقم پوری ہونے پر اکاؤنٹ ہولڈر کو حج کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ 'پہلے آؤ پہلے پاؤ 'کی بنیاد پر بھی انتخاب کیا جاتا ہے۔ اگر باری آنے پر اکاؤنٹ میں مطلوبہ رقم جمع نہیں ہوتی تو حکومت اپنی جیب سے ادا کر دیتی ہے اور مستقبل میں ہونے والے منافعے سے رقم کاٹ لیتی ہے۔ اس منصوبے نے اکثریت ملائیشین عوام کو حج کے لیے صاحب استطاعت بنا دیا ہے۔

وزارت مذہبی امور کو موصول تجاویز

1. سرکاری سطح پر 'حج فنڈ' کے نام سے منصوبہ شروع کیا جائے، جس کی نگرانی تمام مکتبہ فکر کے علما اور معاشی ماہرین پر مشتمل شرعی بورڈ کرے گا۔

2. ابتدائی طور پر اس منصوبے کے کھاتے اسلامک بینکوں اور پوسٹ آفسز میں کھولے جائیں۔

3. سٹیٹ بینک آف پاکستان میں 'حج فنڈ' کے نام سے علیحدہ کاؤنٹرز قائم کیے جائیں۔

4. حج فنڈ کا ممبر بننے کے لیے ممبرشپ فارم سٹیٹ بینک کے علاوہ اسلامی بینکوں اور پوسٹ آفسز پر مہیا کیے جائیں۔

5. حکومت کھاتے کھولنے کے لیے ابتدائی رقم ایک لاکھ روپے مختص کرسکتی ہے اور جو شخص حج فنڈ کا ممبر بن جائے، اسے ایک اکاؤنٹ نمبر الاٹ کیا جائے تاکہ کھاتہ دار جب چاہے سٹیٹمنٹ نکلوا سکے۔

6. حج کی ادائیگی سے پہلے رقم نکلوانے پر پابندی ہو، لیکن اگر حج کی ادائیگی کے بعد منافع بچ جائے تو وہ لوگوں کو واپس کردیا جائے۔

7. جہاں تک کھاتے داروں کی رقم سے سرمایہ کاری کرنے کا معاملہ ہے تو اس کے لیے مشارکہ، مضاربہ، مرابحہ، تکافل، سکوک، اجارہ اور بے المعجل جیسے بہترین اسلامی سرمایہ کاری کے قوانین موجود ہیں۔

8. شرعی بورڈ کی منظوری کے بعد حج فنڈ کی رقم سے حلال کاروبار میں حلال طریقے سے سرمایہ کاری کی جائے اور نفع و نقصان کو بھی انہی قوانین کے مطابق تقسیم کیا جائے۔

9. حکومتِ پاکستان کے پاس حلال کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے کے سینکڑوں آپشن ہر وقت موجود رہتے ہیں اور یہ سرمایہ کاری اندرونِ ملک کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک بھی ہوسکتی ہے۔ پھر اس سرمایہ کاری سے کمائے گئے منافعے اور سرمائے کی رقم ملا کر کھاتے داروں کے حج کے اخراجات برداشت کیے جائیں۔

10. حج کی ادائیگی کے لیے لوگوں کا انتخاب 'پہلے آئیے پہلے پایئے' کی بنیاد پر کیا جائے۔ پھر جن لوگوں کا انتخاب ہوجائے مگر ان کے منافعے اور سرمائے کی رقم ملاکر بھی حج کی ادائیگی کے اخراجات مکمل نہ ہوں تو حکومت اس فنڈ میں موجود دوسرے کھاتے داروں سے فنڈ لے کر ان کے حج اخراجات کی ادائیگی کرے اور مستقبل میں ہونے والے منافعے سے اس کی ادائیگی کردے۔

11. لیکن اگر منافع اور سرمایہ حج اخراجات سے زیادہ ہوجائے تو پھر بونس کی شکل میں کھاتے داروں کو یہ رقم واپس کردی جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان