سائیکل پر مکہ مدینہ جانے کا خواہش مند مستونگ کا شہری

اللہ بخش نے دو افراد کے چلانے والی ایک خصوصی سائیکل بنائی ہے جس پر وہ مکہ مدینہ جانا چاہتے ہیں، لیکن انہیں حکومت کی جانب سے اجازت اور سفری اخراجات کے لیے سپانسر شپ درکار ہے۔

 40 سالہ اللہ بخش کا تعلق بلوچستان کے پسماندہ ضلع مستونگ سے ہے ۔ وہ بنیادی طور پر ایک سائیکل ساز اور سائیکلسٹ ہیں۔

اللہ بخش نے دو افراد کے چلانے والی ایک خصوصی سائیکل بنائی ہے جس پر وہ مکہ مدینہ جانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’اس سائیکل کو بنانے میں مجھے دو سے تین سال لگے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ایک کمپنی کے پاس سائیکل بنانے کے لیے جو سہولیات موجود ہوتی ہیں وہ میرے پاس موجود نہیں ہے، لہذا ایک کاریگر، ایک گرائنڈر، ایک سکرو رینچ اور تھوڑے سے اوزار کے ساتھ بندہ کیا کرسکتا ہے؟یہی وجہ ہے کہ تین سال کی محنت کے بعد میں نے یہ سائیکل بنائی۔‘

اللہ بخش گزشتہ 10 سال سے بلوچستان کے معروف سبی میلے میں مختلف اقسام کی سائیکل کا شو دکھاتے رہے ہیں۔ ان میں کنفرٹ سائیکل، ٹنڈم سائیکل اور معذور افراد کے چلانے والی سائیکل شامل ہیں۔

انہوں نے صوبائی اور قومی سطح پر سائیکل پر حجاز مقدس جانے کی کوششیں کی ہیں مگر حکومت کی جانب سے تاحال انہیں اجازت نہیں ملی ۔

اللہ بخش کے مطابق: ’ہمارے لیے حالات اچھے نہیں ہیں۔ اگر ایک شخص فرانس، اٹلی اور جرمنی سے سائیکل پر پوری دنیا کی سیر کرنے نکل سکتا ہے تو ایک پاکستانی اور ایک محنت کش ایک مقدس مقام  پر سائیکل پر کیوں نہیں جاسکتا؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت کی جانب سے تو ابھی تک اللہ بخش کو اجازت نہیں ملی مگر سائیکل پر سعودی عرب تک سفر کرنے کے خواب کو لے کر ان کی تیاری مکمل ہے ۔

اللہ بخش نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ تین سال سے اپنے اس دورے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سائیکل پر مکہ مدینہ جانے کا کُل فاصلہ 35 ہزار کلومیٹر بنتا ہے، جو وہ تین ماہ کے اندر مکمل کرسکتے ہیں۔

سائیکل پر اپنے اس دورے کے لیے اللہ بخش کو سعودی عرب کا ویزہ، پانچ سے دس لاکھ روپے اور دیگر ضروری سامان کی ضرورت ہوگی۔ ان کے ساتھ ایک فرد اور بھی ہوگا کیونکہ وہ دو افراد کے چلانے والی سائیکل ’ٹینڈم‘ پر سفر کر رہے ہیں۔

اللہ بخش اپنے اس دورے کے لیے سپانسرز اور حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق دنیا بھر میں سائیکلسٹ کے ایونٹس اور دوروں کو نجی شعبے اور حکومتیں سپانسر کرتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’ہم سکیورٹی اور پروٹوکولز کے لیے حکومت اور سپانسر شپ کے لیے پاکستان کی معروف اور بڑی کمپنیوں سے اپیل کرتے ہیں تاکہ ہم ان کی مدد سے اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔‘

اللہ بخش نے بتایا کہ ان کا پاسپورٹ بن رہا ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ سعودی حکومت کی جانب سے بھی اس جذبے کی قدر کرتے ہوئے انہیں ویزے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

 وہ اس سائیکل پر سعودی عرب تک سفر کرکے نہ صرف مقدس مقامات کی زیارت کرنا چاہتے ہیں بلکہ اس دورے سے وہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام بھی روشن کرنا چاہتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا