کشمیر میں چار ہلاکتوں کے بعد رہائشیوں اور بھارتی فوج کے درمیان جھڑپیں

بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں حکام کا کہنا ہے سری نگر میں سرکاری فورسز اور مبینہ شدت پسندوں کے درمیان جھڑپ میں ایک خاتون اور تین ’عسکریت پسند‘ ہلاک ہو گئے ہیں۔

خاتون کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی سینکڑوں کشمیری سڑکوں پر نکل آئے(اے ایف پی)

بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں حکام کا کہنا ہے سری نگر میں سرکاری فورسز اور مبینہ شدت پسندوں کے درمیان جھڑپ میں ایک خاتون اور تین ’عسکریت پسند‘ ہلاک ہو گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھارتی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ مشتبہ عسکریت پسندوں کے ایک گروپ اور بھارتی فوج کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کا یہ واقعہ جمعرات کو سری نگر میں پیش آیا جہاں ہلاک ہونے والوں میں ایک 45 سالہ خاتون بھی شامل ہے۔

بھارت کی پیراملٹری فورس کے ترجمان کا کہنا ہے پولیس اور فوج کے جوانوں نے ’عسکریت پسندوں کی علاقے میں موجودگی کی اطلاع پر مشترکہ کارروائی کی تھی جس کے فوری بعد ہی یہ جھڑپ شروع ہوگئی۔‘

ترجمان نے بتایا کہ جھڑپ میں نیم فوجی دستے کا ایک اہلکار زخمی بھی ہوا۔

اطلاعات کے مطابق مشتبہ عسکریت پسندوں اور بھارتی فورسز کے درمیان جھڑپ کے دوران علاقے کے سینکڑوں رہائشیوں نے ’عسکریت پسندوں‘ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے فائرنگ کے مقام کے قریب ہی مارچ اور بھارتی فوجیوں پر پتھراؤ شروع کر دیا جس کے ’جواب‘ میں سرکاری فورسز نے شاٹ گنز سے پیلٹ اور آنسو گیس کی فائرنگ کی۔

عوام اور فورسز کے درمیان جھڑپوں میں فوری طور پر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انسداد عسکریت پسندی پولیس اور نیم فوجی دستوں نے آدھی رات کے بعد اس اطلاع پر کہ مسلح عسکریت پسند ایک رہائشی مکان کے اندر چھپے ہوئے ہیں، سری نگر کے باتاملو محلے کو گھیرے میں لیا تھا جہاں فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔

بھارتی پولیس نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس فائرنگ میں تین مشتبہ ’عسکریت پسند‘ مارے گئے جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ مقامی افراد تھے۔

ایک پولیس افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’مقابلے کے دوران ایک خاتون کی موت بھی ہوئی۔‘ بعد میں پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ خاتون فائرنگ کے تبادلے کی زد میں آ گئی تھیں، ان کی موت بدقسمتی ہے۔

انہوں نے  مزید بتایا کہ لڑائی کے دوران نیم فوجی دستے کا ایک اہلکار بھی زخمی ہوا۔

خاتون کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی سینکڑوں کشمیری سڑکوں پر نکل آئے اور سرکاری فوج پر پتھراؤ کیا۔ جائے وقوعہ پر موجود اے ایف پی کے ایک فوٹو گرافر کے مطابق ہجوم نے ’پاکستان زندہ باد‘ اور ’ہمیں آزادی چاہیے‘ جیسے نعرے لگائے۔

کشمیر کے متنازع خطے میں مشتبہ عسکریت پسندوں اور بھارتی فوج کے مابین مسلح تصادم اکثر ہوتے رہتے ہیں لیکن جموں و کشمیر کے سابق دارالحکومت میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ اس طرح کی آخری جھڑپ جون میں ہوئی تھی جب سری نگر کے مرکز میں بھارتی فوج نے تین مقامی مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک اور 15 مکانات کو تباہ کردیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک روز قبل ہی شمال مشرقی کشمیر کے ایک قصبے سوپور میں اسی طرح کے مظاہرے ہوئے جہاں 26 سالہ عرفان احمد ڈار کو مبینہ طور پر پولیس کی حراست میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ڈار کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولیس نے انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا اور بعد میں اس کی لاش کو ایک کھلے علاقے میں پھینک دیا۔تاہم پولیس کا الزام ہے کہ ڈار بھارت مخالف عسکریت پسندوں کا ساتھی تھا اور وہ مردہ پائے جانے سے پہلے ہی پولیس کی تحویل سے فرار ہوگیا تھا۔

ڈار کی لاش کو بھی ان کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کیا گیا اور بھارتی فورس نے انہیں مارے جانے والے مبینہ عسکریت پسندوں کے لیے مختص قبرستان میں دفن کردیا۔ بھارت اور پاکستان کے مابین کشمیر کی متنازع سرحد یا ایل او سی سارا سال گرم رہتی ہے جہاں دونوں افواج لگ بھگ روز فائرنگ اور مارٹر گولوں کا تبادلہ کرتی ہیں جس کے نتیجے میں دونوں اطراف کے فوجی اور عام شہری ہلاک ہوتے ہیں۔

بدھ کو جنوبی کشمیر میں ایل او سی پر ہونے والی فائرنگ کے دوران ایک بھارتی فوجی ہلاک ہوگیا تھا۔ گذشتہ سال اگست کے بعد سے اس ہمالیائی خطے میں اس وقت اضطراب اور غم و غصہ مزید بڑھ گیا ہے جب نئی دہلی نے خطے کی نیم خودمختاری کی حیثیت کو ختم کردیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا