اور پردہ اٹھ گیا

اگر ایک میٹنگ کی خبر لیک ہو سکتی ہے تو پھر کسی میٹنگ کو استثنیٰ حاصل نہیں۔ اب سب میٹنگ میٹنگ کھیل سکتے ہیں۔

(انڈپینڈنٹ اردو)

ہماری سیاسی تاریخ کے نسبتاً تابناک ابواب بھی خفیہ پن سے خالی نہیں۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح  کو جن حالات میں زیارت میں رکھا گیا یا وہاں سے ایک مشکل سفر کروایا گیا، حقائق کی روشنی سے خالی ہیں۔ ان کی ہمشیرہ کی موت، لیاقت علی خان کا قتل، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے، غلام اسحق خان کے سیاسی داؤ پیچ، ضیا الحق اور مشرف کا طاقت پر قبضہ، بنتے اور بگڑتے ہوئے سیاسی دھڑے سب کچھ ایک خول میں بند ہیں۔ اتنے بڑے واقعات پلاننگ کے بغیر تو نہیں ہوئے ہوں گے، اس کے پیچھے مہینوں بلکہ سالوں کی کاوش ہو گی لیکن اس کا کوئی ریکارڈ ہمارے پاس موجود نہیں۔

 حالت تو یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھارت کے ساتھ کشمیر پر معاہدے اور اس سے متعلق بات چیت کا کوئی ترتیب سے رکھا ہوا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ بہت سی باتیں جو سرکاری دستاویزات میں ہونی چاہییں تھیں جو جنرل مشرف اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر اپنے ساتھ ہی بیرون ملک لے گئے ہیں۔ جو کچھ بچا کھچا تھا وہ ان کے دوست طارق عزیز صاحب اپنے مخصوص انداز سے بھنوؤں کو نوچتے اور موڑتے ہوئے بھول چکے ہیں۔

اگر آپ آج جاننا چاہیں کہ پاکستان کے دفاعی معاملے کی اس اہم ترین کڑی کے اس تاریخی موڑ پر کیا مذاکرات ہوئے تو آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔ اور تو اور امریکہ کے ساتھ دہشت گردی پر غیرمشروط اور ’حکم کرو سرکار‘ والا معاہدہ بھی موجود نہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے افغان جہاد کی مد میں آنے والے ڈالروں کے تھیلے حساب کتاب کے بغیر غائب ہو گئے۔

اس لحاظ سے یہ امر خوش آئند ہے کہ خفیہ ملاقاتوں میں ہونے والی باتوں اور شرکت کاروں وغیرہ کا ریکارڈ بننا شروع ہو گیا ہے۔ جس کسی نے بھی یہ سوچا تھا کہ پارلیمینٹیرینز کی ملاقاتوں کی خبر سامنے لا کر ایک کائیاں چال کھیل رہا ہے اب قوم اور صحافیوں کی مزید جاننے کی جستجو کے سامنے بےبس نظر آ رہا ہو گا۔

نہ زبانون پر تالے لگائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کیمرہ میٹنگ کی کوئی حیثیت باقی رہ گئی ہے۔ اب ہر کوئی ڈان لیکس کرنے میں مصروف ہے۔ جب غیررسمی ڈنر پر ہونے والی بات چیت کو سرکاری ذرائع کے ذریعے خبر کی تصدیق کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے تو اب کوئی ملاقات راز نہیں رہ سکتی۔ یہ اصول ان ملاقاتوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جو ماضی میں ہو چکی ہیں۔ چاہے ان کا تعلق 2018 کے انتخابات میں سیاسی جوڑ توڑ سے ہو یا احتساب کے نظام کے ذریعے چیخیں نکلوانے کا بندوبست۔

جو کوئی بھی اس سیاسی فساد میں شریک رہا ہے یا جس نے اس کے تانے بانے بنتے ہوئے دیکھے ہیں اب ان معلومات کو سامنے لا سکتا ہے۔ مجھے تمام جماعتوں کا علم تو نہیں ہے لیکن دو بڑی جماعتوں نے ان تمام ملاقاتوں کا ریکارڈ تاریخ، نام، واقعات سمیت باقاعدہ محفوظ کیا ہوا ہے۔ بعض جگہوں پر یہ اجلاس ویڈیو پر بھی ریکارڈ شدہ ہیں۔

کون آ رہا تھا، کون جا رہا تھا کس نے کس وقت کس سے کیا کہا اب ایک ریکارڈ کی صورت میں ان جماعتوں کے پاس موجود ہے۔ میں نے یہ ریکارڈ دیکھا نہیں ہے لیکن یہ مفروضہ غلط نہیں ہو گا کہ اس ریکارڈ نے ان تمام افراد اور ان کے خیالات کو قلم بند کر لیا ہے جو عرصے تک پردے کے پیچھے سے کام کرتے رہے۔

چونکہ یہ جماعتیں خود بھی ان ملاقاتوں میں شرکت کرتی رہی ہیں لہذا اس ریکارڈ کو سامنے لانے سے پہلے وہ اس قیمت کے بارے میں بھی سوچیں گے جو ان کو چکانی پڑے گی۔ وہ یہ بھی دیکھیں گے کہ اس کے ردعمل کے طور پر ان کے خلاف یا ان سے متعلق اداروں کے پاس موجود فائلیں بھی کھل سکتی ہیں۔

لہذا قوی امکان ہے کہ یہ ریکارڈ فائل میں ہی بند رہے گا۔ مگر حالات کے تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ جس طرح محمد زبیر اور جنرل باجوہ کی ملاقاتوں کے بارے میں باتیں سامنے آئی ہیں۔ اس مجبوری کے تحت محمد زبیر پر کون سی قدغن لاگو ہوتی ہے جس کے تحت وہ کہا سنا سب کچھ جوں کا توں بیان نہ کر دیں۔

جو رابطے، وعدے، دھمکیاں بالواسطہ طور پر پہنچائی جاتی ہیں وہ اگر کسی دن دیوار سے لگائی ہوئی سیاسی جماعتوں کے منہ سے بیان ہونا شروع ہو جائیں تو ایک بہت بڑا طوفان کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ سیاست دان جو اپنے حلقوں کو مطمئن کر سکتاہے، تنازعات سے پیدا ہونے والی شرمندگی کو سہنے کی سکت رکھتا ہے۔ دو چار دن شرمندگی اٹھانے کے بعد وہ اپنے حلقے کے نمائندے کے طور پر دوبارہ سے کام کا آغاز کر سکتا ہے۔ بالخصوص جب عوام کو علم ہے کہ اس بیچارے کی مجبوریاں کیا ہیں۔

لیکن وہ افراد جنہوں نے عہد ناموں پر دستخط کیے ہوئے ہیں، قانون کی پاسداری کی قسمیں کھائی ہوئی ہیں، جن پر خاص قسم کے رویے اپنانے کی آئینی قدغن موجود ہے ان کے لیے مسائل مختلف نوعیت کے ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں کو توڑنا، نتائج تبدیل کرنا، مقدمے بنوانا، انصاف کے عمل میں ذاتی ترجیحات کو بیچ میں لا کر اس کا رخ تبدیل کرنا یہ سب ٹی وی چینلز پر بحث کے دوران ہنسی مذاق میں تو اڑایا جا سکتا ہے لیکن ایک باقاعدہ ریکارڈ کی صورت میں خطرناک چارج شیٹ بنتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پچھلے ہفتے کے واقعات کے تناظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اپوزیشن اپنا لائحہ عمل تبدیل کر دے گی۔ پہلے دباؤ اور دھونس پر واویلا کیا کرتے تھے مگر اب وہ دباؤ اور دھونس ڈالنے والوں کے نام لیا کریں گے۔ اگر ایک آدھ مرتبہ کوئی ایک آدھ سیاست دان یہ کام کرے تو اس کو روکنا آسان ہے۔ قبرستان جیسی خاموشی میں سسکیاں لینے والا بھی دیوانہ محسوس ہوتا ہے۔ مگر جب ہر طرف سے خفیہ معاملات کی تفصیلات سامنے آئیں گی تو پھر زبان بندی کرنا ناممکن ہو جائے گا۔

جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبدالغفور حیدری نے اس نئے لائحہ عمل کی ایک ہلکی سی جھلکی دکھائی ہے اور وہ بھی ایک ٹی وی پروگرام میں جہاں پر ویسے ہی سینسر شپ کا راج ہے۔ ان کے دو جملے بم کے دھماکے کی طرح محسوس ہوئے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مفصل انداز سے ترتیب دیا ہوا بیانیہ کیا غضب ڈھائے گا۔

ہم سب نے پاکستان میں اہم معاملات پر شفافیت کے لیے اپنے تئیں کافی جہدوجہد کی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک پردے نہیں اٹھیں گے اس قوم کی آنکھ اور عقل پر پردہ پڑا رہے گا۔ عوام کو بے وقوف بنانا، الٹے سیدھے بیانات کے ذریعے گمراہ کرنا آسانی سے ہوتا رہے گا۔ قومی سلامتی کے حساس ترین معاملات کے علاوہ سیاسی امور کھل کر سامنے آنے چاہیں ورنہ یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا۔

ہم جیسے بہت سے دوسرے دوستوں کی یہ کاوشیں عمومی طور پر ناکام ہی رہیں۔ مگر اب حادثاتی طور پر یہ شفافیت خود سے سیاسی معاملات میں داخل ہو رہی ہے۔ بھلا ہو اس کا جس نے یہ سوچا تھا کہ پارلیمینٹیرینز کی ملاقات کی خبر بذریعہ شیخ رشید سامنے لا کر اپوزیشن کی سبکی کی جائے۔

یہ کر کے اس نے وہ جن بوتل سے باہر نکال دیا ہے جو منت سماجت یا طاقت اور زور سے واپس نہیں جائے گا۔ اگر ایک میٹنگ کی خبر لیک ہو سکتی ہے تو پھر کسی میٹنگ کو استثنیٰ حاصل نہیں۔ اب سب میٹنگ میٹنگ کھیل سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ