’جہاں ریڈیو کبھی خوف پھیلاتا تھا وہیں ایک لڑکی ریڈیو پر جانیں بچاتی رہی‘

ڈپٹی کمشنر سوات نے شائستہ حکیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ روڈ سارے بند تھے مواصلات کا کوئی نظام نہیں تھا، سارا ہسپتال خالی تھا لیکن شائستہ حکیم عوام کی خدمت کرنے میں سرفہرست رہیں۔

ایف ایم ریڈیو 98 پر کرونا وائرس کے حوالے سے خصوصی ٹرانسمشن ’ریڈیو کلینک‘ چلانے کے لیے شائستہ حکیم کو منتخب کیا گیا

جب پاکستان میں کرونا کی وبا پھیلی اور ملک میں لاک ڈاﺅن لگایا گیا تو اس دوران سوات کے عوام کو بروقت معلومات کی رسائی ممکن بنانے کے لیے ضلعی اور ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے ایف-ایم ریڈیو 98 کا انتخاب کیا گیا۔

ایف ایم ریڈیو 98 پر کرونا وائرس کے حوالے سے خصوصی ٹرانسمشن ’ریڈیو کلینک‘ چلانے کے لیے شائستہ حکیم کو منتخب کیا گیا۔

اس ریڈیو کلینک کے ذریعے ڈاکٹرز کی مدد سے شائستہ سوات کے عوام کو حکومتی احکامات (ایس-او-پیز) پر عمل کرانے پر آمادہ کرتی رہیں اور اسی دوران احتیاط کے باوجود وہ خود بھی کرونا وائرس کی شکار ہوگئیں۔

خصوصاً سوات کے حوالے سے ریڈیو کے بارے میں شائستہ حکیم کا کہنا تھا کہ ’سوات میں ایک دور ایسا تھا جب ریڈیو خوف پھیلانے کے لیے استعمال ہوتا تھا یا لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے لیے استعمال ہوتا تھا مگر آج ہم دیکھیں تو وہی لڑکی ریڈیو پر بیٹھی ہے اور لوگوں کی جانیں بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

سوات کے لوگوں کے لیے ریڈیو کلینک کیوں ضروری تھا؟

اس بارے میں ڈاکٹر عبداللہ نے بتایا کہ ’جیسےکرونا کی وبا پھیلی تو او پی ڈیز بند کرنا پڑیں۔ اس وجہ سے ڈاکٹر اور مریض کے درمیان خلا پیدا ہوگیا تو ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور ہسپیٹل انتظامیہ نے یہ بات ضروری سمجھی کہ ان کے لیے ایک ایسے میڈیا کا انتخاب کیا جائے کہ لوگوں تک ڈاکٹر کی رسائی ممکن ہو۔‘

 

سوات ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پر خواتین کو گھر سے نکلنے کی بہت کم اجازت دی جاتی ہے، اسی وجہ سے سوات میں خواتین صحافی بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ڈپٹی کمشنر سوات ثاقب رضا اسلم  کہتے ہیں کہ ’ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یہ ایف ایم ریڈیو پروگرام کون کرے گا؟ مردوں کا آپشن ہمارے پاس میسر تھا لیکن ایشوز سب سے زیادہ خواتین کے تھے، تو ہمارے پاس شائستہ کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔‘

شائستہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ ’روزانہ سو سے زیادہ کال آتی گئیں جن میں 80 سے زیادہ خواتین ہمیں کال کرتی تھی۔‘

اس موقع پر شازیہ بی بی، جو ریڈیو پروگرام کو سننے والوں میں سے ایک ہیں نے بتایا کہ ’کرونا کی وجہ سے لوگ گھروں میں قید ہو گئے تھے تو یہ ایک سہولت تھی کے ڈاکٹرز یا آفیشل لوگ جو ہیں وہ ان کو معلومات دیتے تھے کہ آپ نے وقتن فوقتن کیا کرنا ہے کون کون سی تدابیر اختیار کرنی ہیں، کون کون سی ادویات استعمال کرنی ہیں، تو جب لوگ ہسپتال نہیں پہنچ پا رہے تھے تو وہ سہولت ان کو گھروں میں میسر ہو گئی۔‘

ریڈیو کلینک کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ اگر کسی شخص کو صحت کا مسئلہ ہوتا اور وہ ریڈیو پہ کال کرتا تو ریڈیو پر بیٹھے ڈاکٹر اس کو صلاح مشورہ دیتے، بعد میں وہ یہی صلاح مشورے اپنے ارد گرد لوگوں کو بھی بتاتے اسی طرح سب کے مسائل حل ہو جاتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر عبداللہ نے بتاتے ہیں کہ ’اگر ریڈیو نہ ہوتا تو ہم لوگ بہت پیچھے رہ جاتے، ہمارے لوگ ایسے متحرک اور حساس نہیں ہو پاتے جس طرح ابھی ہیں اور سوات میں کرونا کے مریض جہاں کم ہو رہے ہیں اس میں سب سے بڑا کردار ریڈیو کا ہے۔

شائستہ حکیم نے یہ بھی کہا کہ ان کو بہت ڈر لگ رہا تھا جب وہ ریڈیو کا پروگرام کرتی تھیں اور ڈر اس بات کا تھا کی کہیں ان کو کرونا نہ ہو جائے لیکن احتیاط کے باوجود وہ کرونا وائرس کی شکار ہو گئیں۔

ڈپٹی کمشنر سوات نے شائستہ حکیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ روڈ سارے بند تھے مواصلات کا کوئی نظام نہیں تھا، سارا ہسپتال خالی تھا لیکن شائستہ حکیم عوام کی خدمت کرنے میں سرفہرست رہیں۔

شائستہ حکیم نے لوگوں کو پیغام دیا کہ اپنی احتیاط سب سے زیادہ ضروری ہے، کرونا سے لڑنے کے لیے دوسروں سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں اپنے ہاتھ بار بار دھوئیں اور بھیڑ میں جانے سے گریز کریں۔

کرونا کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کرنے والے کرداروں پر  مبنی یہ کہانی ’پرعزم پاکستان‘ مہم کا حصہ ہے۔ اس کی اشاعت اور پروڈکشن انڈپینڈنٹ اردو اور پاکستان پیس کولیکٹو کی مشترکہ کاوش ہے۔ ایسے باہمت اور پرعزم کرداروں اور ان کی محنت کو سامنے لانے میں ان طلبہ و طالبات نے کلیدی کردار ادا کیا جو پاکستان پیس کولیکٹو کے ڈاکومینٹری فلم کے تربیتی پروگرام کا حصہ تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا